تحریر ؛۔ جاویدایازخان
گزشتہ روز مجھے اپنے پاسپورٹ کی تجدید کے سلسلے میں پاسپورٹ آفس جانے کا اتفاق ہوا تو حیرت ہوئی کہ جو ماڈل ٹاون اے بہاولپور کی بڑی روڈ اس آفس کی جانب جاتی ہے وہاں اپنی گاڑی لے کر جانا ہی ممکن نہ تھا رش کا یہ عالم تھا کہ پاسپورٹ آفس سے بڑی دور گاڑی کھڑی کرنی پڑی اور پیدل چل کر دفتر تک پہنچا ۔مگر وہاں تو اس قدر رش تھا کہ اندر جانے کا راستہ ہی نہ ملتا تھا ۔بےشمار مرد ،خواتیں ،بوڑھے اور نوجوان شور مچاتے اپنے اپنے کاغذات ،ٹوکن وغیرہ ہاتھوں میں سنبھالے اس رش کا حصہ بنے ہوۓ تھے ۔رش میں سے بار بار باآواز بلند ہدایت کی جارہی تھی کہ جیب کتروں سے ہوشیار رہیں اور اپنی اپنی جیبوں کی حفاظت کریں ۔لوگ قطاروں کی بجاے ہجوم کی شکل میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے ۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ انٹر نیٹ لنک ڈاون ہونے پر پاسپورٹ دفتر میں شہریوں کے شدید رش کی باعث قطاریں لگ گئیں جو رفتہ رفتہ بے ترتیب ہجوم کی شکل اختیار کر چکی ہیں ۔ایک جانب تو پاسپورٹ بنوانے والوں کا رش تھا تو دوسری جانب بنے ہوۓ پاسپورٹ لینے اور معلومات حاصل کرنے والوں کی بھیڑ لگی تھی ۔سخت گرمی پسینے اور حبس کے موسم میں ان شہریوں کا کیا حال ہو سکتا ہے یہ جان لینا زیادہ مشکل نہیں ہے ۔اس بد انتظامی اور افراتفری کی باعث بزرگ مرد وخواتین کی حالت خاصی خراب تھی ۔یہ سب لوگوں کئی کئی گھنٹوں سے اس رش میں پھنسے ہوۓ تھے ۔دفتر کا عملہ کام تو ضرور کر رہا تھا مگر وہ انٹرنیٹ کی اسپیڈ کے سامنے بےبس نظر آتا تھا ۔ بہر حال آہستہ آہستہ لوگ ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کاونٹر تک بمشکل جا پارہے تھے ۔مجھے حیرانی یہ تھی کہ پاسپورٹ کی اتنی بڑھی ہوئی فیسوں کے باوجود اس قدر لوگ پاسپورٹ کے لیے کیوں پریشان ہیں ؟آخر یہ ہمارے پاکستانی پاسپورٹ کو لیکر کدھر جانا چاہ رہے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ پاسپورٹ ملک سے باہر جانے کے لیے ہی درکار ہوتا ہے ۔پاسپورٹ ملازمین کے مطابق گزشتہ چند ماہ سے پاسپورٹ بنوانے والے شہریوں میں بہت بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔جن میں سے زیادہ تر نوجوان ہیں جو پہلی مرتبہ پاسپورٹ بنوانا چاہتے ہیں اور نئے پاسپورٹ بنوانےکے لیے یقینا” کافی معلومات اور ڈیٹا درکار ہوتا ہے ۔ایک خبر کے مطابق ملک بھر میں تقریبا” چالیس ہزار پاسپورٹ بنوانے کے لیے درخواستیں وصول ہو رہی ہیں جبکہ ان کے پاس زیادہ سے زیادہ بیس ہزار پاسپورٹ بنانے کی گنجائش ہے ۔ایسی صورتحال میں انٹر نیٹ کا بند ہونا یا پھر آہستہ کام کرنا سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے اور عملے پر کام کا دباؤ اور لوگوں کا پریشر بہت بڑھ جاتا ہے ۔نوجوانوں اور بےروزگاروں کے علاوہ بھی لوگ اپنے پہلے سے باہر موجود بچوں اورعزیزوں کے پاس جانے کے خواہشمندہیں اور دنیا بھر کے ممالک کی سیاحت کرنے کی نیت سے بھی پاسپورٹ بنوا نا بے حد ضروری سمجھتے ہیں ۔عمرہ اور زیارات کے لیے جانے والوں کی تعدادمیں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھا جارہا ہے ۔ بہر حال ملک سے باہر جانے کی دوڑ میں پاسپورٹ کو اولیت اور کلیدی حیثیت ہوتی ہے ۔میری وہاں موجود کئی نوجوانوں سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر نوجوان وزٹ ویزہ پر دوبئی یا امارات جانا چاہتے ہیں جہاں کا وزٹ ویزہ باآسانی مل جاتا ہے وہ تین ماہ یا چھ ماہ وہاں جاکر مزدوری اور روزگار تلاش کرتے ہیں اور پھر باقاعدہ ویزہ کا انتظام کرکے واپس آجاتے ہیں ۔اس وزٹ ویزہ کے دوران بھی وہ غیر قانونی طور کچھ نہ کچھ مزدوری تلاش کر لیتے ہیں ۔تاکہ ان کا گزراوقات ہوتا رہے ۔پاسپورٹ آفس میں ایک بڑی تعداد ان نوجوان سٹوڈنٹس کی بھی دکھائی دیتی ہے جو اسٹڈی ویزہ کے حصول کی جدوجہد کر رہے ہیں ۔ان میں سے بہت کم نوجوان واقعی تعلیم کے حصول کے لیے جانا چاہتے ہونگے لیکن اکثریت تعلیم کے بہانے صرف قانونی طور پر ایک مرتبہ یورپ تک پہنچنا چاہتی ہے تاکہ وہاں جاکر کوئی روزگار تلاش کر سکیں یا پھر ان کے وہاں پہلے سے موجود عزیز ان کا وہاں کوئی مستقل انتظام کر ہی دیتے ہیں ۔ورنہ وہ غیر قانونی طور پر ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں ۔مجھے بےشمار ڈاکٹرز ،انجینیرز ،وکیل اور اساتذہ بھی دکھائی دئیے جو صرف روزگار کے لیے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں ۔ہمارے ملک سے یہ برین بڑی تیزی سے ڈرین ہو رہا ہے ۔ مجھے عملے کے ایک اہل کار نے بتایا کہ حیران کن بات یہ ہے کہ پاسپورٹ بنوانے والوں میں خواتین کی تعدا د پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے ۔جن میں ہر عمر کی خواتین شامل ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ باہر جانے کی ایک دوڑ سی لگی ہے جس کی وجہ پاکستان میں بڑھتی بےروزگاری اور مہنگائی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔کہتے ہیں کہ نوجوان طبقہ کسی بھی ملک کے معاشرے کی وہ قوت ہوتا ہے جس کے دم قدم سے زندگی کی لہر دوڑتی ہے اور یہی دراصل ملکی ترقی و خوشحالی کا سب سے بڑا عنصر سمجھا جاتا ہے ۔ پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد کل آبادی کا ساٹھ فیصد سے زیادہ ہے اور ان میں سے بیشتر پاکستان سے بڑی بڑی تعلیمی ڈگریاں لیے مستقبل سے مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں ۔ ہر سال چالیس لاکھ نوجوان روزگار کی عمر میں داخل ہو تے ہیں جن میں سے صرف بمشکل چالیس فیصد ہی روزگار جیسی یہ نعمت حاصل کر پاتے ہیں ۔تقریبا” ان میں سے نصف پاکستانی نوجوانوں کو بےروزگاری کی باعث معاشی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ بیرون ملک جانے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک جانے کا رجحان بڑھتا جارہا ہےاور وہ دیگر ممالک میں جاکر دوسرے درجے کے شہری بننا قبول کر لیتے ہیں ۔اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہر دوسرا شخص یورپ یا امریکہ میں زندگی گزارنے کا خواب دیکھ رہا ہے ۔نادرا ،فارن آفس اور پاسپورٹ آفس کے باہر بےتحاشا ہجوم اس بات کی گواہی ہے کہ لوگ ملک چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن کیوں ؟ یہ ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔میں نے ایک پاسپورٹ بنوانے کے لیے آۓ نوجوان سے پوچھا کہ بھائی کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ تو وہ مسکرایا اور بولا سر کہیں نہ کہیں تو جائیں گے ؟ جہاں کا ویزہ مل گیا وہیں چلے جائیں گے ۔آخر کیوں ہماری نوجوان نسل اب اس ملک میں نہیں رہنا چاہتی؟ کیا انہیں اپنا مستقبل اس ملک میں روشن نظر نہیں آتا ؟ہمارا یہ قیمتی سرمایہ یونہی دوسروں ملکوں کی تعمیر وترقی کا حصہ بنتا رہے گا ؟ ان کے نزدیک باہر جانے کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ وہ بیرون ملک جاکر زرمبادلہ پاکستان بھجتے ہیں جو ملکی معیشت کی بہتری میں ایک اہم فیکٹر ثابت ہوتا ہے ۔تاہم یہ جواز اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ ہمارے ملک اور ہماری معیشت کو ان کی باہر سے زیادہ یہاں بڑی ضرورت ہے ۔یقینا” ہمارے پالیسی سازوں کو اس معاملہ پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ میری ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ گو ہم لوگوں کو باہر جانے سے روک تو نہیں پارہے لیکن کچھ ایسا بندوبست تو ضرور کردیں کہ یہ لوگ لمبی لمبی قطاروں سے بچ کر باآسانی اپنے پاسپورٹ بنوا سکیں ۔بوڑھے بچے اور خواتین پاسپورٹ آفس کے بے ہنگم رش کی پریشانی سے بچ سکیں ۔اس کے لیے صرف ای پاسپورٹ جیسے اچھے اقدام کی طرز پر کئی دوسرے طریقہ کار بھی ہونے ضروری ہیں جس کے ذریعہ نئے پاسپورٹ کے علاوہ کم ازکم پاسپورٹ کی معلومات ،تجدید اور بنے ہوۓ پاسپورٹ کی ہوم ڈلیوری تو گھر بیٹھے ممکن ہوسکے جس سے یقینا” پچاس فیصد رش ضرور کم ہو سکتاہے ۔پوری دنیا ڈیجیٹل ہونے جارہی ہے تو پھر بلاوجہ لوگوں کو دفتروں میں اکھٹا کرنا وقت کا ضیاع ہی سمجھا جاۓ گا ۔معلومات کے لیے ہیلپ لائن ،تجدید کے لیے اون لائن سہولت اور پاسپورٹ ڈلیوری کے لیے کوریر سروس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔اسی طرح تعلیمی اسناد اور کاغذات کی تصدیق کے لیے بھیایک ڈیجیٹل نظام واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ فارن آفس کے باہر ہجوم اور قطاریں ختم ہو سکیں اور تصدیق کا یہ کام کم ازکم ہر ضلعی سطح پر ممکن بنایا جاے ٔ تاکہ دور دراز کے سفر سے بھی بچا جاسکے اور غیر ضروری اخراجات بھی نہ ہوں ۔آج کے دور میں وقت اور اخراجات دونوں ہی بہت اہم ہیں ۔آج اگر بینکنگ گھر بیٹھے ایک موبائل فون پر ممکن ہو چکی ہے تو یہ سب کیوں نہیں ؟