آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں ۔۔۔


دشتِ امکاں بشیر احمد حبیب
جولائی کے آخری ہفتے میں میرا قیام نیوجرسی میں تھا جہاں میرے فیکلٹی آف فارمیسی پنجاب یونیورسٹی کے دوست جو آج کل FDA میں ایک اعلی عہدے پر فائز ہیں، انہوں نے دوستوں کے اعزاز میں ایک پرتکلف ڈنر کا اہتمام کیا وہاں ان دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی جن کو ایک دہائی کے بعد دیکھا ۔ تقریباً سبھی فارماسسٹ ہونے کے ناطے امریکہ میں ایک بہت پر تعیش زندگی بسر کر رہے ہیں اور آسودہ حال ہیں گو وقت نے ان کے بالوں میں چاندی بھر دی ہے مگر ان کے چہروں پر اعتماد کی زیادتی اور آ نکھوں میں بے فکری کی چمک نے مجھے بے حد متاثر کیا ۔

حسب توقع مجھ سے ان سب کا مشترکہ سوال یہی تھا کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہے ؟

میرا جواب تھا پاکستان کا مستقبل تو تابناک ہے جبکہ میں امریکہ کے مستقبل سے سخت نا امید ہوں ۔ میرے جواب نے ان کو چونکا دیا ۔پہلے وہ کِھل کھلا کر ہنسے پھر مجھے سنجیدہ دیکھ کر حیرانگی سے میری طرف تکنے لگے ۔

یہ ایک سنجیدہ موضوع ہے ، میں نے انہیں کہا ، اگر آپ کچھ دیر مجھے سنجیدگی سے سن لیں گے تو اس بات کی گہرائی تک جا سکیں گے ۔

اب سب میری طرف متوجہ تھے

ہم سے تہزیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا
دشتِ وحشت میں بھی آداب لیے پھرتے ہیں

میں نے اپنی گفتگو کا آ غاز اس statement سے کیا ۔۔

تہزیبوں کے عروج و زوال کا دورانیہ صدیوں پر محیط ہوتا ہے ۔ اور یہ سفر crest اور trough یعنی نشیب و فراز میں ہوتا ہے میرے حساب سے آج امریکہ فراز تک پہنچ کر نشیب کی طرف محو سفر ہے جبکہ ہماری مشرقی تہزیب اپنے نقتئہ زوال سے فراز کی طرف رواں دواں ہے ۔

آپ میں سے کتنے لوگ مشہور فلسفی اور مورخ Will Durant کو جانتے ہیں ۔۔

اس کی یہ statement سنیے جو کم و بیش دنیا کی تمام تہزیبوں کے مطالعے اور تجزئیے کے بعد اس نے پیش کی ۔۔

The family is the nucleus of civilization.” – (Will Durant)

اس سے پہلے بھی نامور فلسفی اپنے ادوار میں مختلف انداز میں یہی conclude کر چکے ہیں ۔۔ مثلاً

1- The family is the first government; the first state.” – (Aristotle)


2- “The strength of a nation derives from the integrity of the home.” – (Confucius)

پھر Will Dourant اپنی بات کو مزید elaborate کرتے ہوئے یہ کہتا ہے ۔۔

When family disintegrates, civilization disintegrates. When family integrates, civilization elevates”
Will Durant (1885-1981),

جب فیملی انتشار کا شکار ہوتی ہے تو تہزیب زوال کا شکار ہوتی ہے اور جب فیملی stable ہوتی ہے تو تہزیب عروج کی طرف گامزن ہوتی ہے۔

اگر میرے دوست اس منزل فکر تک میرے ساتھ ہیں اور متفق ہیں تو یہاں میں آپ کے سامنے یہ سوال رکھتا ہوں ۔

کیا امریکن سولائزیشن آج فیملی یونٹ کی stability کے مسلے سے نبرد آ زما ہے یا نہیں ؟

اس سوال کو اس بیک گراؤنڈ میں دیکھیئے ۔

1-امریکہ میں بڑھتا ہوا divorce rate ۔۔ جب کہ 40 سے 50 فی صد میریجز طلاق پر اختتام پزیر ہوں

2-جب کہ 25 % سے زیادہ بچے single parent کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوں۔

, آپ میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں ابھی کچھ مدت پہلے یونائیٹڈ سٹیٹس کی مختلف ریاستوں جیسا کہ California , Oregan, New Jersey سمیت تقریباً آ ٹھ ریاستوں میں مندرجہ ذیل قانون پاس کیا گیا ۔

یعنی ۔۔۔

Gender identity and expression Act:

جو کہ سٹوڈنٹس ، سکول گوئنگ سٹوڈنٹس کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنا سکول میں اندراج Male یا Female کی حثیت سے کروا سکتے ہیں خواہ وہ biologically کسی بھی Sex سے تعلق رکھتے ہوں اور وہ یہ اپنے Parents کی permission کے بغیر یہ کر سکتے ہیں ۔

Allowing students to self-identify as male or female, regardless of their biological sex, without parental permission.

آپ میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ
What is

_LGBTQ+ rights and recognition_:

یہ ہے ۔۔۔

Legalization of homosexuality, lesbianism, and same-sex marriages (both female-female and male-male).

کیا آپ میں سے مجھے کوئی بتا سکتا ہے یہ اور ایسے بہت سارے قوانین جو اب امریکہ اور دوسری جدید civilizations میں implement ہوتے جا رہے ہیں اور جن کو ہیومن رائٹس کی آڑ میں کورٹس سے بھی endorsement مل چکی ہے ایسا کیونکر ممکن ہوا ؟

یہ اس لیے ممکن ہوا ۔۔۔ کہ majority opinion یہ تھی ۔۔۔ گویا یہ اکثریتی رائے کا شاخسانہ ہے ۔۔۔ اب یہاں ہمیں یہ decide کرنا ہے کیا انسان انفرادی یا اجتماعی طور پر تہزیب کی بقا اور ارتقاءکے حوالے سے صیحح فیصلے کر سکتا ہے یا نہیں ؟

جب Will Dourant اور دوسرے فیلسیوف نے تہزیبوں کے مطالعے اور تجزیے کے بعد یہ نوٹ کر لیا تھا کہ تہزیب تب ھی ارتقا کرتی ہے جب فیملی یونٹ stable ہوتا ہے ۔۔۔

مگر وہ یہ نہیں سمجھ پائے یہ فیملی یونٹ stable ہوتا کیسے ہے ۔۔

وہ اس حقیقت کو کبھی نہ سمجھ پائے کہ اس کے لیے ہمیں الہامی علم کی ضرورت پڑتی ہے ۔۔۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے آ پ گاڑی لیتے ہیں تو ایک مینوئل گاڑی کے manufacturer کی طرف سے ساتھ ملتا ہے ۔۔۔ جو بتاتا ہے کتنے مائلز کے بعد آ ئل چینج ہو گا اور کتنے مائلز کے بعد ائیر فلٹر ۔۔۔ کیا ہم گاڑی سے توقع کر سکتے ہیں وہ از خود اپنے لیے preventive maintenance کا کوئی نظام مرتب اور follow کر سکتی ہے ۔

ہمیں اپنے Creater کی طرف لوٹنا پڑے گا سمجھنا پڑے گا ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ۔

آپ نے کبھی سوچا امریکہ میں divorce rate اس قدر ہائی کیوں ہے اور اب لوگ یا تو بغیر شادی اور بچے کے رہنا چاہتے ہیں یا male male شادی کی طرف کیو ں راغب ہیں ۔۔

آپ امریکہ کے عائلی قوانین اٹھا لی جیے ۔۔۔ اگر بیوی ایک بچے کی ماں ہو اور اسے طلاق ہو جائے تو اس کی پانچوں گھی میں ہیں ۔ وہ گھر جس میں وہ رہی رہے ہوں مرد کو اپنی سابقہ بیوی کے لیے چھوڑنا پڑتا ہے ۔ جو پراپرٹی شادی کے دوران بنائی گئی ہو خواہ مرد نے بنائی ہو دونوں میں آدھی آدھی بٹتی ہے ۔۔۔ عورت کو بچے کی خرچے کی مد میں مرد کی salary کا لگ بھگ 50 فی صد at source ملتا ہے یعنی جہاں مرد جاب کرتا ہے کمپنی مطلقہ کو ڈائرکٹ payment کرتی ہے ۔۔۔ وہ عورت اب آذاد ہے جس مرد سے چاہے تعلق رکھے ۔۔

ایسے میں عورت کیا چاہے گی ۔۔ شادی ہو ایک بچہ ہو اور پھر طلاق ہو جائے اور مرد کیا چاہے گا شادی کے بغیر اور بچوں کے بغیر زندگی بسر کی جائے ۔

اسی طرح male male اور female female میرجز میں فیملی یونٹ کہاں ہے، next generation کہاں ہے ۔۔ فیملی سسٹم تو گیا بھاڑ میں۔

اس کا مطلب

Comments (0)
Add Comment