(تحریر: عبدالباسط علوی)
چند ریاست مخالف عناصر گمراہ کن معلومات اور پروپیگنڈہ پھیلاتے ہیں کہ آزاد کشمیر ترقی اور سہولیات میں پاکستان اور مقبوضہ کشمیر سے پیچھے ہے جو کہ مکمل طور پر غلط ہے۔ اعداد و شمار واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ آزاد کشمیر کے حالات اور اعشاریے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے مقابلے میں نمایاں طور پر بہتر ہیں۔ پاکستان کی 241.49 ملین کی آبادی کے ساتھ آذاد کشمیر کی آبادی تقریباً 4.45 ملین ہے جو کہ کل آبادی کا 1.8% بنتی ہے اور 2.45 ملین یا 1.01% بیرون ملک کشمیری اسکے علاوہ ہیں۔ آبادی میں اضافے کی شرح زیادہ سازگار معاشی اور تعلیمی پروفائل کی نشاندہی کرتی ہے، حالانکہ یہ معیشت، جاب مارکیٹ اور رہائش پر اضافی دباؤ ڈالتی ہے۔ موجودہ سڑکوں کا نیٹ ورک 8,865 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جو بہترین روڈ ڈینسٹی کی نشان دہی کرتا ہے جو پاکستان سے دوگنی اور مقبوضہ کشمیر سے زیادہ ہے۔ تیرہویں ویں ترمیم (2018) نے آزاد جموں و کشمیر کونسل سے مالیاتی اور قانون سازی کے اختیارات آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو منتقل کر دیے، جس سے دوسرے صوبوں کی طرح آذاد کشمیر کی علاقائی خود مختاری میں اضافہ ہوا۔ اگرچہ آزاد جموں و کشمیر کی آبادی ضلع راولپنڈی سے کم ہے، لیکن اس کا انتظامی ڈھانچہ اور سویلین حکومت صوبے کا مقابلہ کرتی ہے۔ آذاد کشمیر کی روڈ ڈینسٹی 0.66 ہے، جبکہ پاکستان میں 0.32 اور مقبوضہ کشمیر میں 0.52 ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں خواندگی کی شرح 76.8 فیصد ہے، اس کے برعکس پاکستان میں 62.3% اور مقبوضہ کشمیر میں یہ شرح 67% ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں سکول اور طالب علم کا تناسب 1:49 ہے، جبکہ پاکستان اور مقبوضہ کشمیر دونوں میں یہ 1:16 ہے۔ پاکستان کے 1:44 اور مقبوضہ کشمیر کے 1:20 کے مقابلے میں آزاد کشمیر میں استاد اور طالب علم کا تناسب 1:7 ہے۔
قابل ذکر امر ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 800 سرکاری اسکولوں میں کوئی بچہ داخل نہیں ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان میں آزاد کشمیر کے نوجوانوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے 2% کوٹہ مختص ہے، جس میں 22 یونیورسٹیوں میں 125 نشستیں مختص ہیں۔ حکومت پنجاب نے KEEF (AJ&K ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ) کے لیے 750 ملین روپے مختص کیے ہیں۔ مزید برآں، پنجاب کے میڈیکل کالجوں میں آزاد جموں و کشمیر کے طلباء کے لیے 36 نشستیں مخصوص ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر میں خواندگی کی بہترین شرح ہے جو تعلیم اور مناسب وسائل کی مناسب فراہمی کی نشاندہی کرتی ہے۔ اصل رہائشی آبادی (2.45 ملین) پر غور کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں ڈاکٹر-مریض کا تناسب مقبوضہ کشمیر سے بہتر ہے۔ پاک فوج کی طبی سہولیات میں سالانہ تقریباً 1,180,000 مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ مزید برآں آزاد کشمیر کے تمام باشندے فوج کی صحت کی سہولیات پر مفت علاج کے حقدار ہیں جو صحت کی دیکھ بھال کے بوجھ کو نمایاں طور پر بانٹتے ہیں۔ ڈاکٹر-مریض کا تناسب آزاد کشمیر میں 1:2315، پاکستان میں 1:2405 اور مقبوضہ کشمیر میں 1:2660 ہے۔
آزاد جموں و کشمیر میں ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب پاکستان کے 10.4 فیصد کے مقابلے میں 7.77 فیصد ہے۔ آزاد کشمیر میں غربت/بے روزگاری کی شرح 22%، مقبوضہ کشمیر میں 23.1% اور پاکستان میں 43% ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کا فوج میں 7 فیصد ملازمت کا کوٹہ ہے۔ 40 کلو گندم کے آٹے کی قیمت آزاد جموں و کشمیر میں 2000 روپے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں 4680 روپے ہے اور یہ پاکستان کے مقابلے میں بھی بہت کم ہے۔ تقریباً 3.24% آبادی فوج/مسلح افواج میں ملازمت کرتی ہے۔ تیس فیصد آبادی کے پاس سرکاری ملازمتیں ہیں، جو سالانہ بجٹ کا ایک اہم حصہ ہے۔ فی یونٹ بجلی کا ٹیرف آزاد جموں و کشمیر میں 3-6 روپے ہے، جبکہ مقبوضہ کشمیر اور پاکستان میں 3.95-42.70 روپے ہے۔ آذاد کشمیر اور گلگت بلتستان واحد خطے ہیں جن میں 100% ٹیلی کام ڈینسٹی ہے۔ سروس کے آزادانہ معیار کے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 90% سے زیادہ باشندوں کو آذاد کشمیر میں 3G/4G سگنل کی طاقت پر اعتماد ہے اور SCO اور Zong ویب پیج لوڈنگ کے بہترین معیار فراہم کر رہے ہیں۔ تمام ٹیلی کام کمپنیاں آذادی سے کام کرتے ہوئے بہترین سروسز فراہم کر رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے مقابلے میں آزاد کشمیر میں ٹیلی کام ٹاورز کی تعداد نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ اگرچہ آزاد جموں و کشمیر کی آبادی ضلع راولپنڈی سے کم ہے، لیکن اس کا انتظامی ڈھانچہ صوبے کے برابر ہے۔ تقریباً 35.24% آبادی فوج، سول آرمڈ فورسز، وفاقی اور آزاد جموں و کشمیر کی حکومتوں میں ملازمت کرتی ہے، جو اپنے لوگوں کے ساتھ ریاست کی وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کو مقامی کشمیریوں نے مہاراجہ کے استحصالی اور ظالمانہ طرز حکمرانی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے آزاد کرایا جس نے بنیادی طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ تعلقات ہمیشہ اہم رہے ہیں، کشمیریوں کے اندر پاکستان کے ساتھ اتحاد کے لیے گہرا عزم ہے۔ ‘خودمختار کشمیر’ کا بیانیہ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔
آزاد جموں و کشمیر اور ہندوستان کے زیر قبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورت کے درمیان تفاوت گورننس، انسانی حقوق اور مجموعی معیار زندگی میں واضح فرق کا ثبوت ہے۔ جہاں پاکستانی انتظامیہ کے تحت آزاد جموں و کشمیر نے ترقی اور جمہوریت میں نمایاں پیش رفت کی ہے، وہیں مقبوضہ کشمیر مسلسل جبر، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور گھٹن کے ماحول سے دوچار ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کشمیری عوام کے لیے امید کی کرن بن کر کھڑا ہے۔ خطے نے مختلف شعبوں میں خاطر خواہ ترقی کی ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کو منتخب نمائندوں کے ساتھ ایک جمہوری نظام حاصل ہے، جو فیصلہ سازی میں لوگوں کی شرکت کو یقینی بناتا ہے۔ خطہ بنیادی انسانی حقوق کو برقرار رکھتا ہے، آزادی اظہار، اجتماع اور مذہب کی اجازت دیتا ہے۔ تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال میں نمایاں سرمایہ کاری کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں شرح خواندگی اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی میں بہتری آئی ہے۔ آزاد جموں و کشمیر نے بہتر سڑکوں، مواصلاتی نیٹ ورکس اور عوامی سہولیات کے ساتھ بنیادی ڈھانچے کی بہترین ترقی کا مشاہدہ کیا ہے۔ خطے کی معیشت نے مسلسل ترقی کی ہے، روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں اور معیار