قرآنِ حکیم کا ہر باب ایک جاودانی صدا ہے، جو دل کے نہاں خانوں کو بیدار کرتی، اور روح کے دریچوں پر ابدی اجالے بکھیرتی ہے۔ مگر بعض سورتیں ایسی ہیں جو اپنے اختصار میں بھی صدیوں کے فکر و تدبر اور حکمت و عرفان کا ایک بحرِ بیکراں سمیٹ لیتی ہیں۔ انہی گراں قدر لعل ہائے آبدار میں سورۃ العصر اپنی سحر انگیز معنویت کے ساتھ ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ تین آیات کی یہ چھوٹی سی سورۃ گویا پوری انسانی تقدیر کا خلاصہ ہے وقت کی عظمت، انسان کے خسارے کی تلخ حقیقت، اور نجات کی ابدی راہوں کا ایک درخشاں منشور ہے۔ سورت عصر کی گہرائی اور اہمیت کو سمجھنے کے لیے امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان کافی ہے جو سورت کی معنویت کی وسعت اور گہرائی میں بہت زخیم ہونے کی وجہ سے اشارۃً کہا گیا ہے ورنہ قرآن کی ہر آیت اور ہر سورت کا یہی معاملہ ہے۔
“اگر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر صرف یہی ایک سورت نازل کرتا تو یہ ان کے لیے کافی ہوتی۔”
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: (نوٹ۔۔آیات کے احترام کو ملحوظ رکھتے سورت کے عربی متن کی بجائے صرف ترجمعہ دیا گیا ہے)
(1) “قسم ہے زمانے کی!” وقت عصر کی قسم!
اس آیت میں “زمانہ” اور لفظ “قسم” دونوں عمیق گہرائیوں میں لپٹی معنویت سے لبریز ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے– زمانہ، وقت وہ کارواں ہے جس کی روانی کبھی تھمتی ہی نہیں، جس کی موجیں ہر خسارے کی روداد اپنے اندر نقش کر لیتی ہیں۔ زمانہ ہی سورت کا موضوع ہے اور پہلی آیت کا محور بھی یہی ہے۔ یہاں سوال اٹھ رہے رہیں اللہ کو قسم کھا کر بات کرنے کی کیا ضرورت تھی! جب اس کا فرمایا ہوا ہر لفظ درجہء سند رکھتا ہے تو قسم کس لیے! پھر زمانے کی قسم کھائی ہے، زمانے کی یہاں کیا اہمیت ہے۔ اللہ نے والنجم اور والفجر کی قسم بھی کھائی مگر یہ قسمیں کسی بھی لحاظ سے عصر کی اہمیت کے قریب بھی نہیں۔ عصر کا عرصہ وقت کے وسیع و عریض ازل سے ابد کی وسعتوں تک محیط سمندر کو اپنے پہلو میں سمیٹے ہوئے ہے۔ عصر کا مفہوم زمانے کی اُس وسیع تر جہت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے جو ازل سے لے کر ابد تک پھیلی ہوئی ہے۔ سورۃ العصر کے نزول کے وقت کے حالات ہوں یا تاریخ کے مختلف ادوار، انسان کا طرزِ عمل تقریباً یکساں رہا ہے, ظلم، جبر، بربریت، اخلاقی انحطاط اور گمراہی کی روش۔ انبیا کرام نے ہر دور میں اصلاح کی کوشش کی، پیغامِ حق پہنچایا، مگر اکثر نے ہدائیت کو یکسر رد کیا، جس کے نتیجے میں کئی اقوام عذابِ الٰہی کا شکار ہوئیں اور صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئیں۔ پھر بھی اگلی قوم نے بھی اپنے پچھلوں کی روشنی اختیار کی۔ قرآن ان واقعات کو اپنے مذکور قصص کے ذریعے بار بار یاد دلاتا ہے، لیکن اس کے باوجود انسان اپنی شیطانی روش سے باز نہیں آتا۔ اقبال نے اپنے اس شعر میں وقت کی اہمیت کی تھوڑی سی وضاحت کی ہے۔
تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلہ روز و شب صیر فی کائنات۔
مشائخ اکرام اور مفسرین نے سورۃ العصر میں استعمال ہونے والے لفظ “عصر” کے کئی معانی بیان کیے ہیں۔ بظاہر یہ تین حروف کا چھوٹا سا لفظ ہے، مگر اپنے اندر بے پناہ معنوی وسعت رکھتا ہے۔ عمومی طور پر اس کے تین معروف مفاہیم لیے جاتے ہیں:
1. زمانہ یا وقت
2. عصر کی نماز— یعنی دن کے اختتام سے قبل کا مخصوص وقت– ظہر اور مغرب کی درمیانی نماز
3. حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دور یعنی “عہد رسالت”۔
اگرچہ لغوی اعتبار سے یہ تمام معانی درست ہیں، تاہم قرآن میں اس لفظ کے انتخاب اور سیاق و سباق سے گہرے معانی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ معتدل مفہوم “نمازِ عصر” کا وقت ہے، جو دن کے اس حصے کی نمائندگی کرتا ہے جب روشنی ڈھلنے لگتی ہے۔ یہی وقت علامتی طور پر ڈھلتی عمر اور زوال کی ابتدا کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔
دن، وقت کی ایک اکائی کے طور پر، کائناتی وقت کی پیمائش کا بنیادی پیمانہ ہے۔ یہ چھیاسی ہزار چار سو لمحوں پر مشتمل سیاہی اور سفیدی کے امتزاج سے بنا ہوا یونٹ ہے، جو روشنی اور تاریکی کے درمیان مسلسل تبدیلیوں کا عکاس ہے۔ یہی دن، وقت کے تسلسل کا پیمانہ بن کر سامنے آتا ہے۔ وقت لمحوں کا ایک بے کنار سمندر ہے۔ ان معنوں میں “عصر” محض ایک وقت کا ٹکڑا نہیں، بلکہ ایک تاریخی موڑ، ایک “point in time” ہے، جیسا کہ انگریزی اصطلاح میں کہا جاتا ہے۔ یہ “point in time” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے پانچویں یا چھٹے سال کا زمانہ ہے، جب سورۃ العصر نازل ہوئی۔ اگر ہم اسے ایک پیمائش کا سنگِ میل (landmark) مان لیں، تو یہ لمحہ انسانی تاریخ اور کائناتی وقت کو دو ادوار میں تقسیم کرتا ہے:
1. عہدِ اوّل: ازل سے لے کر بعثت نبوی تک،
2. عہدِ ثانی: بعثت نبوی سے لے کر قیامت تک۔
اب اگر ہم ریاضیاتی اصولوں کی مدد سے اس کائناتی تقسیم کو سمجھنا چاہیں تو نماز عصر کے وقت کو ایک علامتی بنیاد بناتے ہوئے دن کے اوقات کو مغرب و عصر کے درمیان تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ عصر کے بعد مغرب تک کا وقت دن کے تقریباً 1/24 حصہ بنتا ہے۔ اس طرح دن کا بیشتر حصہ (23/24) عصر سے پہلے کا وقت تصور کیا جا سکتا ہے۔ اس نسبت کو ہم 23:1 کے تناسب سے بیان کر سکتے ہیں۔
اسی تناسب کو اگر ہم کائناتی زندگی پر منطبق کریں، اور موجودہ sientific نظریات کی روشنی میں مانیں کہ کائنات کو بنے ہوئے تقریباً 4.5 ارب سال گزر چکے ہیں، تو عصر کے وقت پر پہنچنے کا مطلب یہ ہوا کہ کائناتی زندگی کا 91 فیصد حصہ گزر چکا تھا۔ یعنی:
91% of total life = 4.5 billion years
= Total life = 4.95 billion years (تقریباً)
اس کے مطابق کائناتی زندگی کا باقی 9% حصہ اب بھی باقی ہے، جو کہ تقریباً 450 ملین سال (یعنی 45 کروڑ سال) بنتا ہے۔
اگر ہم بعثتِ نبوی کو اس “عصر” کا آغاز تسلیم کریں، تو ہم اس باقی ماندہ وقت