پروفیسر خورشید احمد کی شخصیت ۔ایک جہان خورشید

تحریر علامہ عبد الستار عاصم

حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے کہا ہے
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
یقیناً پروفیسر خورشید احمد جیسے جید عالم، مفکر، اور دانشور کی وفات کی خبر دل کو ملول کر دینے والی ہے۔ یہ خبر سنتے ہی اُن کی پوری زندگی کا نقشہ نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا۔ وہ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے نہ صرف علم و تحقیق کے میدان میں نم

ایاں خدمات سرانجام دیں بلکہ عملاً بھی اسلامی فکر اور تحریک کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ اُن کی شخصیت ایک مکمل مسلمان، سچے محب وطن، مخلص مفکر، اور عملی جدوجہد کرنے والے مجاہد کی آئینہ دار تھی۔
میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو ایسی بصیرت، ہمت اور طاقت عطا فرماتا ہے کہ وہ اپنی زندگیاں اللہ کی رضا کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی ذات کو پسِ پشت ڈال کر امتِ مسلمہ کی فلاح و اصلاح، علم و دانش کی ترویج، اور دین کی دعوت کو اپنا مقصد بنا لیتے ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد بھی انہی لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے علم کو محض کتابوں تک محدود نہ رکھا بلکہ اُس علم کو میدانِ عمل میں اتار کر قوم کی فکری، تعلیمی، سیاسی اور معاشرتی رہنمائی کا بیڑا اٹھایا۔
دنیا اُن کے کارہائے نمایاں پر فخر کرتی ہے، اور اُن کے متعین کردہ راستے آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کی فکر، ا

ن کے نظریات، اور ان کی علمی خدمات نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے سرمایہ افتخار ہیں۔ ایسے لوگ جسمانی طور پر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، مگر ان کا فکری ورثہ اور جدوجہد نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن کر ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
اگر کبھی کسی نے یہ جاننا چاہا ہو کہ “بڑے لوگوں کی صحبت انسان کو کس طرح بلند کرتی ہے”, تو اُسے پروفیسر خورشید احمد کی زندگی کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اُن کی شخصیت محض علم و دانش کی علامت نہیں، بلکہ وہ تہذیبوں کے سنگم اور تاریخ کی صداؤں کے امین ہیں۔ اُن کے آباؤ اجداد جالندھر کی مٹی سے اٹھے، دلی کی فضا میں سانس لی، اور پھر رشتوں اور روحانی نسبتوں کا سفر ترکی تک جا پہنچا۔ یوں اُن کے خاندانی مزاج میں وہ کشادگی، گہرائی اور وسعت پیدا ہوئی جسے علامہ اقبال نے یوں بیان کیا تھا: “سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے”۔
پروفیسر خورشید احمد کے والد، نذیر احمد قریشی، دہلی کے علمی و فکری ماحول کے پروردہ، مگر جالندھر کی مٹی سے بندھے ہوئے ایک ایسے مردِ دانا تھے جن کا دل صرف تجارت کے لیے نہیں بلکہ امت کے درد سے دھڑکتا تھا۔ وہ اگرچہ اپنے وقت کے متمول تاجروں میں شمار ہوتے تھے، مگر دولت کی فراوانی نے اُن کی روحانی اور فکری بلندیوں کو محدود نہ کیا۔ اُن کا دل تحریک خلافت کے نعروں پر د

ھڑکتا اور تحریکِ پاکستان کے خوابوں پر جاگتا۔ یہی رجحان اُنھوں نے اپنی اولاد میں بھی منتقل کیا، خصوصاً اپنے منجھلے بیٹے، خورشید احمد کی تربیت میں اُنھوں نے خصوصی دھیان دیا۔
نذیر احمد قریشی کی زندگی کے شب و روز اُن عظیم المرتبت ہستیوں کی رفاقت میں گزرتے جنھوں نے برصغیر کی فضا میں بیداری کی نئی لہر پیدا کی۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، حکیم اجمل خان،یہ سب اُن کے حلقہ احباب کا حصہ تھے۔ اُن کی مجلسوں میں شریک ہونا، اُن کی گفتگو سننا، اُن کے افکار کو دل میں اُتارنا، قریشی صاحب کی روحانی خوراک تھی، اور یہی خوراک وہ اپنے بیٹوں کو بھی فراہم کرتے۔ اُنھیں ساتھ لے جا کر ان محافل کا حصہ بناتے تاکہ آنے والی نسل میں بھی وہی جوت، وہی شوق، اور وہی شعور بیدار ہو جس سے تاریخ رقم ہوتی ہے۔
اخبار “کامریڈ” ہو یا “ہمدرد”, یہ محض اخبارات نہ تھے بلکہ فکری تحریکیں تھیں جن کی پشت پر نذیر احمد قریشی کی خاموش، مگر پر اثر حمایت شامل تھی۔ اُن کا تعاون نہ صرف مالی تھا بلکہ فکری بھی، اور یہی وہ وقت تھا جب تحریکِ پاکستان پورے شباب پر تھی۔ قریشی صاحب، مسلم لیگ کے ایک سرگرم راہ نما کے طور پر تاریخ کے دھارے میں اپنا نقش ثبت کر رہے تھے۔
یہی وہ دَور تھا جب سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکری تحریک اُبھر رہی تھی۔ اُن کی آواز ماہنامہ “ترجمان القرآن” کے ذریعے پورے ہندوستان میں گونج رہی تھی۔ جب مولانا مودودی، نذیر احمد قریشی کی صحبت میں آئے، تو دو دریا آپس میں مل گئےایک فکری، دوسرا عمل

ی۔ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کے درمیان اختلاف کے باوجود ان دو شخصیات کے درمیان جو قربت قائم رہی، وہ اس بات کی گواہ ہے کہ نیتیں صاف ہوں تو راستے الگ ہو کر بھی منزل ایک ہو سکتی ہے۔
گزشتہ صدی کی تیسری دہائی کی بات ہے، جب مولانا مودودی نے علامہ اقبال کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے مشرقی پنجاب کے پٹھان کوٹ میں دارالاسلام کے نام سے ایک علمی ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کی بنیادوں میں نہ صرف فکری نظریہ شامل تھا بلکہ اُس دور کے دردمند دلوں کی دعائیں اور محنت بھی شامل تھی۔ ادارے کی مشاورتی کمیٹی میں جن پانچ افراد کو شامل کیا گیا، اُن میں نذیر احمد قریشی کا نام نمایاں تھا۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی، بلکہ ایک اعتراف تھا،اُن کی بصیرت، ان کی نیت اور ان کے کردار کا۔
یہی نذیر احمد قریشی تھے جنھوں نے اپنے بچوں کے لیے محض دنیاوی کامیابیوں کو ہدف نہیں بنایا، بلکہ اُن کے شعور کو ملت کے درد سے جوڑنے کی کوشش کی۔ اُنھیں صرف یہ نہیں سکھایا کہ علم حاصل کرو، بلکہ یہ بھی سکھایا کہ علم کو عمل سے جوڑو، فکر کو خدمت سے، اور دین کو دنیا میں زندہ رکھو۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر خورشید احمد نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو اُنھیں علم کی فضا میں سانس لینے کا سلیقہ آ چکا تھا۔
یہ وہی خورشید احمد ہیں جنھوں نے نہ صرف معاشیات کے میدان میں بین الاقوامی

Comments (0)
Add Comment