روداد خیال ۔۔۔۔صفدرعلی خاں
کہتے ہیں ہر مشکل اور مصیبت کا سامنا سپورٹس مین سپرٹ سے کرنا ہی اعلیٰ اقدار رکھنے کی دلیل ہے ۔کوئی کھلاڑی جب کسی وقت کوئی غلطی کرتا ہے تو وہ اس کا برملا اعتراف بھی ضرور کرے گا یہی اسکے اعلیٰ نسب ہونے کا ثبوت اور کھیل کی بہترین تربیت کا اثر ہوتا ہے ۔کھلاڑی ہمیشہ فیصلے کھلے دل سے کرتے ہیں دوسرے لفظوں میں حقیقی سپورٹس مین کبھی منافقت نہیں کرتا وہ اپنی ہار کو جیت میں بدلنے کیلئے کبھی جھوٹ کا سہارا نہیں لیتا ۔انہی اوصاف کی وجہ سے دانشور ہمیشہ “سپورٹس مین سپرٹ “سے کام لینے کی تلقین کرتے رہتے ہیں ،اسکی انگریزی میں کچھ اس طرح تعریف ملتی ہے !
“Sportsman spirit” is the spirit of accepting one’s success with humility”
اب یہاں دوسرے کی کامیابی کو تسلیم کرنا ہی سب سے بڑی مشکل ہے ،کسی کو اسکی کامیابی پر مبارکباد دینے والا کام پاکستان میں تو ناپید ہوچکا ہے بلکہ دوسروں کی کامیابی کو تسلیم نہ کرنے کی روایت بہت پرانی ہے ۔سیاست میں اس کا رواج تسلسل سے قائم ہوا ہے اور اس سے کوئی پیچھا بھی چھڑانے کی کوشش نہیں کرتا ۔باالخصوص عام انتخابات میں کسی کی بھی جیت کو تسلیم نہ کرنے کاہر ہارنے والے فریق نے رواج بنا لیا ہے ۔برسوں سے یہی ہوتا آرہا ہے کہ سیاستدان اسی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کرتے رہتے ہیں ۔مخالفت برائے مخالفت کی روایت نے بھی جڑ پکڑی ہے ۔سیاستدان اگر فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مخالف کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے تو ملکی حالات اس قدر دگرگوں نہ ہوتے ،گزشتہ دنوں پاکستان کا نام روشن کرنے کی خاطر ایک غریب گھر کے کھلاڑی کی محنت رنگ لائی ،پیرس اولمپکس میں جیولین تھرو کے مقابلے میں پاکستان کے ارشد ندیم نے تاریخ رقم کرتے ہوئے اولمپک کی تاریخ کی سب سے بڑی 92.97 میٹر کی تھرو کرتے ہوئے پاکستان کو 40 سال بعد اولمپک میں گولڈ میڈل جتوایا۔اولمپک میں نیا ریکارڈ بناکرنئی تاریخ رقم کر دی ۔مزدور کے بیٹے نے دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرکے قوم کے مرجھائے ہوئے چہروں پر تازہ خوشیاں بکھیر دیں ،پوری قوم نے ہیرو ارشد ندیم کی اس عظیم کاوش کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ۔ارشد ندیم نے مایوسیوں کے دلدل میں دھنسے نوجوانوں کو نئی تحریک دیدی ۔کھلاڑی کی اس کاوش پر پورا ملک خوشی سے سرشار نظر آیا ،دوسری طرف ایک پرانے کھلاڑی نے سیاسی ناکامی پر آسمان ہی سر پر اٹھالیا ۔قوم کو مشکلات میں ڈال کر خود بھی مشکل سے دوچار ہوا ،تاہم تاحال انکے ذہن سے ہر حال میں کامیابی حاصل کرنے کاخناس نہیں نکلا۔قوم شدید بحرانوں کا شکار ہوئی ،معیشت تباہی کے دہانے پہنچ گئی ،اخلاقی قدریں دم توڑنے لگیں تو بھی کوئی پائیدار سیاسی حل تلاش نہ کیا جاسکا ۔قوم کی خاطر دوسروں کو برداشت کرنے کی خواہش ہی نہ رہی ،اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کیلئے مواقع ملنے کے باوجود کسی نے بھی پہل نہیں کی ۔ڈائیلاگ سے ہی بہتری کی گنجائش تھی جسے نظر انداز کر دیا گیا ۔ان سب کے باوجودموجودہ حکومت کی جانب سے میثاق معیشت سمیت ہر مسئلے پر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے دروازے اب تک کھلے رکھے ہیں ،مگر اپوزیشن یکجا ہوکر مفاہمت کی بجائے ہٹ دھرمی اور ضد پر اڑی ہوئی ہے ،ابھی کچھ ہی دن پہلے جماعت اسلامی کی جانب سے مہنگائی کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا گیا جس پر مذاکرات ہوئے اور قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے مفاہمت کا راستہ اختیار کیاگیا،عوامی مسائل حل کرنے کے لئے طریقہ کار طے پایا اور خوش اسلوبی سے معاہدہ ہوگیا ،احتجاج بھی پُرامن رہا ،جماعت اسلامی کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کا مطالبہ سنا گیا۔فریقین میں مذاکرات ہوئے اور حکومت نے بجلی سستی کرنے کا وعدہ کرکے حالات کو مزید کشیدہ ہونے سے بچالیا ،جماعت اسلامی نے بھی “سپورٹ مین سپرٹ “کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھرنا موخر کردیا ۔ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے ملک میں سیاسی استحکام لانا ضروری ہے ۔حکومت بتدریج معاشی ترقی سے عوامی بہبود کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے مگر اسکی راہ میں رکاوٹ بننے والے صبر و تحمل ، بردباری اور دور اندیشی سے کام لینے کی بجائے تصادم کا راستہ اختیار کریں گے تو پھر عوامی مسائل تو حل نہیں ہونگے بلکہ مزید خرابیاں جنم لیں گی ،ایسے رویوں کو خیرباد کہنے کی ضرورت ہے ۔حکومت کی بجائے کسی ایک سرکاری ادارے کے ساتھ مذاکرات کی خواہش ظاہر کرنا بھی حقائق سے انحراف کے سوا کچھ نہیں ۔اس طرح تو صرف جمہوریت کی عملی طور پر توہین ہی کی جا رہی ہے ۔اپنی سیاست بچانے کی خاطر اپنے ہی جانثار ساتھیوں کو قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کرنا تو “سپورٹس مین سپرٹ ” نہیں۔کھلاڑی ارشد ندیم کے جذبہ حب الوطنی سے بھی کچھ سیکھیں جنہوں نے مسائل اور مشکلات پر ریاست سے کوئی شکوہ نہیں کیا اور تنہا اپنی جدوجہد سے پوری قوم کے سر فخر سے بلند کر دیئے ۔اب زیادہ نہیں تو کم ازکم “سپورٹ مین سپرٹ” کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ان سیاسی غلطیوں کا ہی اعتراف کرلیں جن سے پوری قوم واقف ہے ۔