اسرائیلی وزیراعظم کا امریکی دورہ اور خطے کا مستقبل

تحریر: صفدر علی خاں

چند روز قبل اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے واشنگٹن کا ایک اہم دورہ کیا جسے عالمی سطح پر نہایت باریک بینی سے دیکھا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ (جو خود کو بین الاقوامی سطح پر ایک امن ثالث کے طور پر منوانا چاہتے ہیں) نے اس دورے کو “خطے میں پائیدار امن کی بنیاد رکھنے کی کوشش” قرار دیا۔ لیکن یہاں تین بنیادی سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا واقعی یہ دورہ مشرقِ وسطیٰ کے زخموں پر مرہم رکھ سکا؟ کیا فلسطینی ریاست کے قیام کی کوئی نئی صورت نکل سکتی ہے؟ یا یہ محض سفارتی تصویریں اور بیانات تک محدود رہے گا؟
اسرائیلی وزیراعظم کے حالیہ دورۂ امریکہ کو بعض حلقے صرف اسرائیلی مفادات کے تحفظ کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں جو کہ برحقیقت ہے کیونکہ اس دورے میں فلسطینوں کے زخموں پر رتی برابر بھی مرہم نہیں رکھا گیا۔ اس دورے کے موقع پرفلسطینی قیادت کو نہ تو اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی کسی دوطرفہ مذاکرات کی کوئی باقاعدہ تجویز سامنے آئی۔ امریکی صدر کی جانب سے یہ ضرور کہا گیا کہ “ہم دو ریاستی حل کی حمایت جاری رکھیں گے”، لیکن اس کے لیے کوئی لائحہ عمل یا ٹائم فریم نہیں دیا گیا۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں امن کی امیدیں پھر مایوسی میں بدلتی محسوس ہوتی ہیں۔البتہ ٹرمپ کا کردار ایک بار پھر نمایاں ہونے لگا ہے۔ ان کے قریبی مشیر جارڈ کشنر بھی مشرق وسطیٰ میں سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کچھ خلیجی ممالک کے ساتھ دوبارہ مفاہمتی پل باندھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں تاکہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو نئی سطح تک لے جایا جا سکے۔ اگرچہ ٹرمپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جنگ بندی کروا سکتے ہیں ،لیکن ان کی سابقہ پالیسیز، جیسے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا، گواہی دیتی ہیں کہ وہ یکطرفہ اقدامات سے گریز نہیں کرتے۔ ایسے میں فلسطینی قیادت اور عوام کے لیے اُن کی ثالثی کتنی قابلِ قبول ہو گی، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔
دنیا نے بارہا دیکھا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام اقوامِ متحدہ کی قراردادوں، عرب لیگ کے موقف اور دنیا کے بیشتر ممالک کی خواہش کا حصہ تو رہا ہے، لیکن اسرائیل کی موجود یا سابقہ حکومتوں کے رویے، مسلسل ناجائز بستیوں کی تعمیر اور فلسطینی علاقوں میں فوجی کارروائیوں سے واضح ہے کہ وہ دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سنجیدہ نہیں۔امریکی دورے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے جو بیانات دیے ہیں، ان میں فلسطین کے حوالے سے کسی واضح منصوبے کا ذکر تک نہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ غزہ پر حالیہ حملوں کی وضاحت بھی امریکی میڈیا میں یک طرفہ طور پر کی گئی۔در حقیقت دیکھا جائے تو امریکہ اور اسرائیل دونوں اس وقت اندرونی سیاسی دباؤ کا شکار ہیں۔ نیتن یاہو اپنی حکومت بچانے کی فکر میں ہیں اور ٹرمپ اپنی سیاسی واپسی کے لیے میدان سجا رہے ہیں۔ ایسے میں فلسطینی ریاست کے خواب کو تعبیر ملنا مشکل دکھائی دیتا ہے، جب تک کہ عالمی برادری، خصوصاً یورپی یونین، چین اور مسلم دنیا متفقہ طور پر ایک فعال اور بااختیار امن عمل کو آگے نہ بڑھائیں۔لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم کا دورۂ امریکہ بظاہر ایک سفارتی سرگرمی تھا، جس سے خطے میں فوری امن یا فلسطینی ریاست کی بحالی کی کوئی ٹھوس امید وابستہ کرنا مشکل ہے۔ البتہ اس دورے نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ اگر دنیا نے فلسطینی عوام کی آواز کو نظرانداز کیا تو مشرق وسطیٰ میں امن ایک سراب ہی رہے گا اور عالمی امن بھی متاثر ہونے کا اندیشہ موجود رہے گا۔

Comments (0)
Add Comment