احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
پیرس اولمپکس کی شناخت بننے والی منفرد تکونی اور تاریخی سرخ ٹوپی ننے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے ۔جو انقلاب فرانس کے دوران آزادی کی علامت ہوتی تھی اور جس کی تاریخ صدیوں پرانی بتائی جاتی ہے اور جو پوری دنیا میں قابل شناخت ہے ۔آج بھی فرانسیسی احتجاج کے دوران یہ ٹوپی پہنے دکھائی دیتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ پیرس اولمپکس کا مقصد ہی ماضی کے اولپکس سے مختلف ہونا ہے ۔اسی لیے اس کی افتتاحی تقریب اسٹیڈیم کی بجاۓ ایفل ٹاور کے ساۓ میں دریاۓ سین کے کنارے منعقد کی گئی ہے ۔ تماشائیوں کے بغیر ٹوکیو اولپکس کی افتتاحی تقریب کا آغاز بالکل منفرد نظر آتا ہے ۔پیرس منتظمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس ڈائزائن کا انتخاب اس لیے کیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کھیل زندگیاں بدل سکتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ پیرس کے اولمپک گیمز کھیلوں کی دنیا میں انقلاب کا آغاز ثابت ہو سکتے ہیں ۔ اسی لیے ہم نے کسی جانور کی بجاۓ ایک آئیڈیل کا انتخاب کیا ہے ،ہم نے فریجیئن ٹوپی کا انتخاب کیا کیونکہ یہ فرانسیسی جمہور کی ایک مضبوط علامت سمجھی جاتی ہے ۔اور فرانسیسی لوگوں کے لیے یہ ایک بہت ہی معروف چیز ہے جو ہماری آزادی کی علامت ہے ۔اسی لیے اولمپکس ا ور پیرا ولمپک میسکوٹ کا نصب العین ہے ” ہم تنہا ہوں تو تیزی سے لیکن لیکن ساتھ مل جائیں تو کہیں زیادہ تیزی سے آگے بڑھتے ہیں ” خدا کرے کہ یہ سوچ دنیا بھر میں اتحاد اور یکجہاتی کی علامت بن جاۓ ۔
المپکس مقابلے ہمیشہ ہی دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب کھنچ لیتے ہیں ۔بچے ،بڑے ،بوڑھے،مرد و خواتین کی دلچسپی کھیلوں اور کھلاڑیوں کے بارے میں دو چند ہو جاتی ہے ۔ہر مرتبہ المپکس کے دوران ہمیشہ نئے نئے ریکارڈ بنتے ہیں اور پرانے ریکارڈ ٹوٹتے ہیں ۔یہ المپکس صرف کھیلوں کے مقابلے نہیں ہوتے بلکہ یہ ایسا خوبصورت ایونٹ ہوتا ہے جس کے سحر میں پوری دنیا گرفتار رہتی ہے ۔اس کے باوجود کہ اس مرتبہ پاکستانی کھلاڑیوں کی اس میں شرکت صرف سات افراد پر مشتمل تھی جو نہ ہونے کے برابر ہےمگر ان سات کھلاڑیوں کے ہمراہ آفیشلز کی ستائیس رکنی ٹیم بھی وہاں پہنچی ہے ۔ پاکستانی کھیلوں کے شیدائی دن رات ان مقابلوں کو دیکھنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس ایونٹ سے ایک جانب تو کھیلوں کے جادو گروں کے نئے نئے کارنامے دیکھنے کو ملتے ہیں تو دوسری جانب محبت،قربانی اور بھائی چارے کی مثالیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔سپورٹس مین اسپرٹ کے ایسے ایسے عملی مظاہرے سامنے آتے ہیں کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے ۔گولڈ میڈلز جیتنے والوں میں چین سرفہرست ہے جبکہ جاپان دوسرے نمبر پر موجود ہے ۔پاکستان اب تک اولمپکس کی پوری تاریخ میں دس گولڈ میڈلز حاصل کر سکا جن میں زیادہ تر گولڈ میڈلز ہماری ہاکی ٹیم نے حاصل کئے ہیں ۔پاکستان کی واحد امید اولپین ارشد ندیم ہیں جنہوں نے ٹوکیو میں بھی جیولن تھرو کے مقابلوں میں نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا ہے اور فائنل مقابلے کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے ۔میاں چنوں کا یہ غریب نوجوان آج پچیس کروڑ پاکستانیوں کے لیے امید کرن بن گیا ہے اور امید ہےکہ وہ نہ صرف پاکستان کے لیے واحد گولڈ میڈل لیکر آۓ گا بلکہ پاکستان کا نام بھی روشن کرنے کا باعث بنے گا ۔پوری قوم کی دعائیں اس کے ساتھ ہیں ۔انشااللہ !
ایسا ہی ایک عملی مظاہرہ گذشتہ دن موجودہ اولمپکس کے دوران دیکھنے میں آیا ہے ۔جب ایک قطری کھلاڑی نے ان ٹوکیو اولمپک گیمز کے دوران بھائی چارے اور محبت کی ایک عمدہ مثال قائم کرتے ہوے ٔ ایک نئی تاریک رقم کر دی ہے ۔یہ مردوں کی ہائی جمپ ایونٹ کا مقابلہ تھا جس کے فائنل میں اٹلی کے جین مارکو ٹمبری اور قطر کے مطع عیسیٰ برشم گولڈ میڈل کے لیے مد مقابل تھے ۔، دونوں نے2.37 میٹر کی چھلانگ لگائی اور برابر رہے،آفیشلز نے دونوں کو 3 مزید چانس دینے کا فیصلہ کیا،دو مرتبہ دونوں پھر برابر رہے،تاہم ٹانگ کی شدید چوٹ کی وجہ سے اٹلی کے ٹمبری کو اپنی تیسری کوشش سے دستبردار ہونا پڑا، قطر کے برشم کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ وہ آسانی سے گولڈ میڈل جیت جاتے۔لیکن برشم نے آفیشلز سے استفسار کیا اور تصدیق کی کہ اگر وہ بھی تیسری جمپنگ کی کوشش سے دستبردار ہو جائیں تو دونوں کھلاڑی طلائی تمغہ کے حق دارہو سکتے ہیں ؟ تصدیق ہونے پر برشم اپنی آخری چھلانگ سے دستبردار ہو گئے اوراولمپک گولڈ میڈل دونوں کو مل گیا ۔مزہبی ،سیاسی ،وطن پرستی اور رنگ ونسل کی رنگینیوں سے بہت بلند اس حقیقی اسپورٹس میں اسپرٹ کو دنیا بھر میں بے حد سراہا جارہا ہے اور زبردست پذیرائی بھی مل رہی ہے،1912 سے اولمپک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ایک ایونٹ میں دو کھلاڑیوں کو گولڈ میڈل دینے کی ایک نئی تاریخ بھی رقم ہوئی۔برشم نے گولڈ میڈل سے بھی بہت بڑی چیز دنیا بھر کے لوگوں کی محبت جیت کر اپنا نام امر کر لیا ہے ۔سوشل میڈیا اس مقابلے کی مکمل ویڈیو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں کچھ بھی انسانیت سے بڑھ کر نہیں ہے ۔کہتے ہیں کھلاڑیوں کے گولڈ میڈلز نہیں کردار یاد رکھے جاتے ہیں ۔
یہ ٹوکیو اولمپکس بھی اپنے اختتام کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور بڑی جلدی ماضی کا حصہ بن جائیں گے ۔لوگ اس اولمپکس کے ریکارڈ ز اس وقت تک یاد رکھیں گے جب تک کوئی اور آکر انہیں توڑ نہیں دیتا ۔دنیا کا ہر ریکارڈ اسی لیے بنتا اور یاد رکھا جاتا ہے کہ آنے والی نسلیں اسے توڑ کر نئے ریکارڈ قائم کر سکیں ۔لیکن قطر کے اس عظیم کھلاڑی برشم کا یہ ریکارڈ شاید کبھی نہ ٹوٹ سکے جو اس نے انسانی قربانی کے لازوال جذبے کے تحت حاصل کیا ہے ۔بےشک یہ کسی کھیل کی جیت نہیں انسانیت کی جیت ہے جو انسانی تاریخ میں صدیوں یاد رکھی جاۓ گی ۔ برشم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جذبہ خیر سگالی اور انسانیت جیت سے بہت بڑی چیز ہوتی ہے ۔