احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
جماعت اسلامی کا آئی پی پیز کے خلاف دئے جانے والا دھرنا بظاہر بڑی کامیابی سےلیاقت باغ اسلام آباد کے تاریخی میدان میں پر امن طور پر جاری ہے ۔یقینا” جماعت اسلامی نے واقعی بہت بڑے موجودہ عوامی ایشو پر اسٹینڈ لیا ہوا ہے ۔حکومت وقت کے نمائندوں سے ا ن کے مذکرات کے بھی کئی دور ہوچکے ہیں اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کی خیر سگالی کے تحت رہائی بھی عمل میں آچکی ہے ۔ان مذاکرات میں ان کے دس مطالبات بھی سامنے آچکے ہیں ۔ان کے مطالبات تقریبا” وہی ہیں جو ایک عام آدمی چاہتا ہے مگر حکومتی مجبوریاں اور مسائل اپنی جگہ موجود ہیں ۔دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی اس دھرنے شرکت نہ کرنے اور حمایت نہ کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی کیونکہ دعویٰ تو وہ سب بھی عوامی مسائل کےحل کی کوشش کا ہی کرتے ہیں ۔شاید وہ اپنی اپنی سیاسی لڑائی میں اس قدر محو ہو چکے ہیں کہ عوامی مسائل پر توجہ ان کے لیے ثانوی مسئلہ ہے ۔جبکہ تازہ دم اور پرعزم امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ اب آئندہ مذاکرات میڈیا کے سامنے ہونے ضروری ہیں ۔کیونکہ حکومت کے مذاکراتی نمائندے یہ کہتے ہیں کہ آپ کی تجاویز تو بہت اچھی ہیں مگر قابل قبول نہیں ہیں ۔ دوسری جانب آی پی پیز کے بنیادی مطالبہ پر شروع ہونے والا یہ دھرنا اب رفتہ رفتہ حکومت ہٹاو تحریک میں تبدیل ہوتا محسوس ہو رہا ہےاور دس مطالبات سے ہٹ کر بھی باتیں کی جارہی ہیں ۔اور اب مہنگائی کے علاوہ بھی موجودہ حکومتی پالیسیوں پر امیر جماعت اسلامی کی تنقید میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔ایک طرف اسلام آباد کے موسمی حالات اس دھرنے کا ساتھ دۓ رہے ہیں تو دوسری جانب بجلی کے بےہنگم بلوں کی باعث لوگوں کی اس جانب بڑھتی توجہ اور سپورٹ اس کی کامیابی کی توقعات میں اضافہ کرتی نظر آتی ہے ۔کیا جماعت اسلامی کا یہ دھرنا نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے ؟ کہتے ہیں کہ دھرنے جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں ۔یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ دھرنے کی اس سیاست سے کون زیادہ متاثر ہوتا ہے ؟ حکومت یا پھر عوام کی روزمرہ زندگی کے معمولات ؟ یا پھر دھرنوں سے پیدا ہونے والی ہیجانی کیفیت ؟حافظ نعیم الرحمان کی تقاریر میں پائی جانے والی انقلابی کیفیت بھی اب رفتہ رفتہ ظاہر ہونے لگی ہے ۔اور لگتا یہ ہی ہے کہ جماعت اسلامی کا یہ دھرنہ کسی نہ کسی منطقی انجام پر ضرور پہنچے گا ۔حافظ نعیم الرحمان صاحب پہلے دن سے ہی پر عزم ہیں کہ آئی پی پیز کا معاملہ جب تک حل نہیں ہوگا یہ دھرنا ہمارے مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا ۔بنیادی طور پر جماعت اسلامی کے مطالبات کوئی نئے نہیں ہیں ۔اپوزیشن کی بیشتر جماعتیں بھی بجلی کے بلوں اور مہنگائی کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں ۔جماعت اسلامی کے مطالبات کی تعداد تو تقریبا” دس ہے مگر بنیادی مطالبات بہت سادہ سے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ بجلی کی جتنی پیداوار ہے اتنے ہی بل عوام سے وصول کئے جائیں ۔تاکہ بند پاور پلانٹ کو کپیسٹی پے منٹ کی مد میں عوام کا خون نچوڑ کر اربوں روپے اور وہ بھی ڈالر کی شکل میں نہ دئیے جائیں ۔ان چالیس پاور پلانٹ کے مالکان کی فہرست سامنے لائی جاے ٔ تاکہ قوم یہ جان سکے کہ یہ مٹھی بھر لوگ آخر کون ہیں ؟ وہ پانچ سو یونٹ تک بجلی کے بل میں پچاس فیصد کمی کا مطالبہ کر ر ہے ہیں ۔ان کے مطابق آئی ایم ایف کےساتھ تئیسوں معا ہدے کے چھیتر نمبرصفحہ پر ہر کھانے پینے کی اشیاء ادویات اور تعلیمی سامان پر ٹیکس نہ لگانے کی بات کی گئی ہے لیکن حکومت نے ان اشیاء پر بھی ٹیکس لگا کر مہنگا کردیا ہے یہ بوجھ قوم کیوں اٹھاے ؟ وہ اشیاء ضرورت کو بیس فیصد کم کرنے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں ۔وہ صنعت وتجارت پر ناجائز ٹیکس ختم اور پچاس فیصد بوجھ کم کرنے کا مطالبہ بھی رکھتے ہیں ۔وہ حکومت سے پیٹرولیم مصنوعات کے حالیہ اضافے اور لیوی کے خاتمہ کا مطالبہ کر رہے ہیں ،زراعت اور صنعت پر ناجائز ٹیکس ختم کرنے اور مراعات دینے کی بات کر رہے ہیں ۔تنخواہ دار طبقے پر سے ٹیکس کے خاتمے اور مراعات یاقتہ طبقہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے خواہشمند ہیں۔وہ اسٹیشنری ائیٹم پر لگانے والا ٹیکس ختم کرنا چاہتے ہیں ۔غیر ترقیاتی اخراجات پر پینتیس فصد کٹ لگانے کا مطالبہ بھی شامل ہے ۔وہ چاہتے ہیں کہ حکومتی اخرجات میں کمی لائی جاۓ ۔بہر حال بنیادی مطالبہ آپی پی پیز سے متعلقہ ہی دکھائی دیتا ہے جو بجلی کے بلوں میں کمی کے مطالبے سے جڑا ہوا ہے ۔کوئی شک نہیں کہ ان کے موجودہ تمام مطالبات کو عوامی پذیرائی بھی مل رہی ہے ۔دوسری جانب ہمارے وزیر اعظم کا یہ تازہ بیان کہ آ ئی پی پیز بہت منافع کما چکے ہیں اب ان پر غور اور فوری نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔یہ بھی امید کی ایک کرن نظر آتا ہے اور حکومت کے اس بارے میں مثبت رویے کی نشاندہی ہوتی ہے اور لگتا ہے کہ اب حکومتی سطح پر اس بارے میں ایک سوچ بیدار ہو چکی ہے اور انہیں عوامی مشکلات کا ادراک بھی ہو چکا ہے ۔ ان ایشوز پر جماعت اسلامی سے بیشتر اپوزیشن جماعتوں کی ہمدردیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں ۔ لیکن بہتر یہ تھا کہ جماعت اسلامی بھی ایم کیو ایم کی طرح یہ مطالبات دھرنے سے قبل ہی حکومت کے سامنے رکھ چکی ہوتی ۔کیونکہ حکومت نے اتنا بڑا فیصلہ کرنے کے لیے بہت کچھ سوچنا اور باہمی مشورہ کرنا ہوتا ہے ۔کیونکہ آئی پی پیز ان معاہدوں میں سے چند میں ہمارے برادر دوست ملک بھی شامل ہیں جنہیں پہلے سے اعتماد میں لینا ضروری ہےجس کے لیے مناسب وقت درکار ہوگا ۔بہر حال “پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ” بہر حال اس دھرنے کے مثبت نتائج کے بارے میں اب آنے والا وقت ہی فیصلہ کرے گا ۔ حکومت اور جماعت اسلامی دونوں کو جوش اور جذبات کی بجاۓ سمجھداری اور دانشمندی سے اس مسئلے کا حل نکالنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہی عوامی توقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔
پاکستان کی تاریخ میں جماعت اسلامی کی دھرنوں ،جلسوں ،ریلیوں ،مہمات،مارچ اور احتجاج کی ایک طویل جد وجہد اور داستان ہے ۔ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ان کی جانب سے یہ سلسلہ جاری پایا ہے ۔گو الیکشن میں تو اس جماعت کی کامیابی اور نمائندگی ہمیشہ کم ہی رہی ہے ۔مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے منظم اور منفرد سیاسی جماعت تصور کی جاتی ہے اور اپنے پرخلوص ورکرز سے پہچانی جاتی ہے ۔شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جماعت اسلامی کو دھرنے کے لیے ایک ایسا عوامی مطالبہ یا بیانیہ ملا ہے جسے ان کے ورکرز کے علاوہ بھی عام لوگوں کی بے پناہ حمایت اور پذیرائی حاصل ہوئی ہے کیونکہ ان کے یہ تمام مطالبات سیاسی نہیں بلکہ عوامی دکھائی دیتے ہیں ۔یہ دھرنا حافظ نعیم الرحمان صاحب کے امیر جماعت اسلامی بننے کے بعد ان کی پہلی بڑی سیاسی اور عوامی مہم بھی قرار دیا جارہا ہے ۔جس کی کامیابی یا ناکامی کا براہ راست اثر ان کی قائدآنہ صلاحیتوں اور ان کی جماعت پر پڑے گا ۔اس لیے جماعت اسلامی کے ورکرز اور عام لوگوں کی تمام تر امیدیں ان کی استقامت اور ثابت قدمی سے جڑی نظر آتی ہیں ۔یہ دھرنہ شاید ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا پہلا امتحان بھی ہو گا ؟بہر حال میں ذاتی طور پر مذاکرات کی کامیابی اور مطالبات تسلیم ہونے کی حق میں دعا گو ہوں ۔خدا کرے کہ مذکرات کے ذریعے کوئی ایسا راستہ نکل سکے جو سب کے لیے قابل قبول ہو اور جس کے نتیجے میں عام عوام پر سے مہنگائی کا بے ہنگم بوجھ بھی کچھ کم ہو سکے ۔