پاکستان کی تاریخ میں ایک نمایاں اور قابل فخر مقام رکھتے ہیں۔ ان کی شہادت کو 76 سال گزر چکے ہیں، مگر ان کی بہادری، جرات اور قربانی آج بھی پاکستانی قوم کے دلوں میں زندہ ہے۔ کیپٹن راجہ سرور نے اپنی جان کی قربانی دے کر نہ صرف اپنے وطن کی حفاظت کی، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال قائم کی، کیپٹن راجہ سرور کا اصل نام راجہ محمد سرور تھا اور وہ 1910 میں پنجاب کے ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں سنگھوری میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متوسط زمیندار خاندان سے تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی لیکن 1927 میں میٹرک مسلم ہائی سکول طارق آباد لائلپور (فیصل آباد)سے کیا، اور بعد ازاں انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کی۔ ان کی فوجی خدمات کا آغاز برطانوی فوج سے ہوا جہاں وہ 1944 میں کمیشنڈ آفیسر بنے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاک فوج میں شامل ہوئے اور یہاں بھی اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا،کیپٹن راجہ سرور نے اپنی فوجی زندگی میں کئی اہم معرکوں میں حصہ لیا۔ ان کی بہادری اور شجاعت نے انہیں بہت جلد اپنے ساتھیوں اور افسروں میں مقبول بنا دیا۔ وہ ہمیشہ اپنے ماتحتوں کی رہنمائی کرتے اور انہیں حوصلہ دیتے رہتے۔ ان کی قیادت میں ان کے دستے نے کئی کامیابیاں حاصل کیں،کیپٹن راجہ سرور کی شہادت 1948 کی کشمیر جنگ کے دوران ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر شدید جنگ جاری تھی۔ کشمیر کی وادیوں میں بھارتی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے کیپٹن سرور نے اپنے دستے کے ساتھ مل کر کئی اہم مقامات پر قبضہ کیا۔ ان کی قیادت میں ان کے دستے نے دشمن کی کئی حملوں کو ناکام بنایا اور اپنے علاقے کا دفاع کیا،کیپٹن راجہ سرور کی سب سے بڑی قربانی 27 جولائی 1948 کو سامنے آئی جب وہ دشمن کی ایک انتہائی محفوظ پوزیشن پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ انہوں نے اپنے دستے کے ساتھ مل کر دشمن کے گولہ باری کے درمیان دشمن کی پوزیشن کو تباہ کیا۔ اس دوران وہ شدید زخمی ہوئے لیکن انہوں نے اپنے مشن کو مکمل کیا اور اسی دوران شہید ہو گئے،کیپٹن راجہ سرور کی شہادت کے بعد انہیں پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز انہیں ان کی غیر معمولی بہادری، شجاعت اور قربانی کے اعتراف میں دیا گیا۔ وہ پاکستان کے پہلے فوجی تھے جنہیں یہ اعزاز دیا گیا،کیپٹن راجہ سرور کی قربانی نے پاکستانی قوم کو حوصلہ اور جذبہ دیا۔ ان کی شہادت نے نہ صرف فوجیوں بلکہ عام لوگوں کو بھی وطن کی محبت اور دفاع کے جذبے سے سرشار کیا۔ آج بھی ان کی بہادری کی داستانیں سکولوں، کالجوں اور فوجی تربیت گاہوں میں سنائی جاتی ہیں تاکہ نئی نسل ان سے سبق سیکھ سکے،کیپٹن راجہ سرور کی یاد میں کئی یادگاریں قائم کی گئی ہیں۔ ان کے گاؤں میں ان کے نام سے ایک سکول بھی قائم کیا گیا ہے جہاں بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ ہر سال 27 جولائی کو ان کے یوم شہادت پر خصوصی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جہاں ان کی قربانی کو یاد کیا جاتا ہے اور انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے،کیپٹن راجہ سرور کی زندگی اور شہادت نے پاکستانی قوم کو یہ سبق دیا کہ اپنے وطن کی حفاظت کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ ان کی بہادری نے یہ ثابت کیا کہ اگر حوصلہ اور جذبہ بلند ہو تو کسی بھی مشکل کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔ ان کی قربانی نے پاکستانی فوجیوں کو یہ یقین دلایا کہ وہ اپنے وطن کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں،کیپٹن راجہ سرور شہید کی قربانی کو 76 سال گزر چکے ہیں مگر ان کی بہادری اور جرات کا جذبہ آج بھی پاکستانی قوم کے دلوں میں زندہ ہے۔ ان کی زندگی اور شہادت نے ہمیں یہ سبق دیا کہ وطن کی محبت سب سے اہم ہے اور اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کیپٹن راجہ سرور کی قربانی نے ہمیں یہ یقین دلایا کہ جب تک ہمارے دلوں میں وطن کی محبت اور دفاع کا جذبہ موجود ہے، ہم کسی بھی دشمن کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ان کی شہادت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ وطن کی حفاظت ہماری اولین ذمہ داری ہے اور اس کے لیے ہمیں ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔