شہر کی ہنگامہ خیزیوں سے اکتاہٹ پر گائوں پہنچنا اب عادت سی ہوگئی ہے ،عارفوالا پاکپتن روڈ پر واقع میرے اس گائوں کو قیام پاکستان کے بعد اہل سادات نے آباد کیا اسی گائوں کی آدھی آبادی کرما والا پیروں کی رہی جو بعد میں ہجرت کرکے اوکاڑہ کی طرف چلے گئے جبکہ گیلانی تسلسل کے ساتھ گائوں کو اپنی کرامات سے فیض یاب کرتے رہے ،انکے ساتھ غیرسیدوں میں میرے نانا رانا خان بہادر بھی اپنے اہلخانہ کے ساتھ اہل سادات کے اسی گائوں چک 57ای بی پیراں والا میں آکر بس گئے پھرراجپوت برادری کے کئی خاندان اہل سادات سے محبت کا ازلی تعلق نبھانے کیلئے اسی گائوں کے مکین ہوئے۔میرے ماموں اور سسر بھی اسی گائوں سے ہیں اور اب میں بھی اہل بیت کی عقیدت میں شیخوپورہ سے عارفوالا کے اسی نواحی گائوں میں اہل سادات کی قربت میں آکر بس گیا ہوں ،یہاں پر سید عبدالعلی شاہ ،سید مظہر گیلانی ،نجف علی شاہ اور انکے اجداد سے اپنے تعلق اور خلوص کے حوالے گزشتہ سے پیوستہ کالموں میں تفصیلی لکھ چکا ہوں ،عبدالعلی سید ایڈووکیٹ نے اپنے کزن زاہد عباس سید سے ملوایا جنہوں نے مجھے زندگی کے حقائق سے روشناس کرواکر سچ لکھنے کی تحریک دی ،زاہد عباس سید سے ملاقاتوں کا جو سلسلہ لاہور سے ہوتا ہوا گائوں تک آپہنچا ہے ،انہوں نے ساہیوال عارفوالا ،پاکپتن جیسے علاقوں میں سچے اور کھرے صحافیوں کی کئی ٹیمیں تیار کیں ،کئی دہائیوں بعد بھی وہ اپنے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے سچ کی آبرو کو زندہ رکھنے کا ہنر تقسیم کررہے ۔اب اگرچہ انکے لاہور سے گاہوں پہنچنے کی وہ پہلے جیسی تیز رفتاری نہیں رہی مگر وہ اپنے دوستوں اور خیرخواہوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ۔غمی و خوشی کے حوالے سے انکی کسی بھی سلسلے میں گائوں آمد ہوئی تو ملاقات کا شرف بخشا گیا ،مجھے کالم نویسی کے ہنر سے روشناس کرانے میں انہوں نے کلیدی کردار نبھایا ،جب بھی انہوں نے بلایا سید زادے کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔ان کے ساتھ محو گفتگو رہنا کسی اعزاز سے کم نہیں ،وہ انتہائی سادہ اندازمیں بات کرکے متاٽر کرتے رہے ،وہ ہمیشہ دوسروں کے کام آنے کی ترغیب خود اپنے حسن عمل سے دیتے رہے ،صحافت کے ساتھ انکی شاعری کے بڑے چرچے رہے ،محرم الحرام کے ایام غم وہ اکٽر وہ گائوں میں آکر گزارتے ،انکے تقریبا سبھی بزرگ وفات پاجانے کے بعد وہ اب لاہور کے ہی ہوکر رہ گئے ہیں ۔گائوں کم ہی آتے ہیں انکے کئی ساتھی بھی دنیائے فانی سے رخصت ہوچکے ہیں ،گزشتہ دنوں جب وہ کسی رشتے دار کی تیمار داری کیلئے گائوں آئے تو انہوں نے کمال مہربانی اور محبت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے شرف ملاقات بخشا ،انکی غیر متوقع آمد نے دلی سکون دیا ۔ملاقات کے دوران زاہد عباس سید نے تصوف ،علم،زندگی اور موت کے حوالے بڑی تفصیلی گفتگو کی ُ،زاہد عباس سید نے بتایا کہ موت اٹل ہے اور اس حقیقت کو من وعن ہم سب نے فراموش کررکھا ہے اگر موت پر کی حقیقت کو ہی دل سے تسلیم کرلیا جائے تو پھر ہم میں سے کوئی گناہ نہ کرے ،زاہد عباس سید کا کہنا تھا کہ یہی مولا علی علیہ السلام کا فرمان ہے ،علم عجزو نیاز اور دوسروں کے ساتھ محبت اور اخلاص کے ساتھ رہنے کا راستہ دکھاتا ہے جبکہ جہالت تکبر ،بداخلاقی اور دوسروں کی دل آزاری کے نے نئے راستے کھولتی ہے ۔زاہد عباس سید نے بتایا کہ دوسروں کے ساتھ خوش اخلاقی کا مظاہرہ ہی بہترین حسن عمل ہے ۔امام حسن السلام نے دنیا کی تمام آسائشیں اور مناصب کو ٹھکرا کر دلوں پر ہمیشہ حکومت کرنے کا راستہ دکھایا جن کے والد نے دنیا کو تین طلاقیں د یکر انسانیت کی معراج کاراستہ دکھایا ہو انکی اولاد سے بھی کوئی دنیا کی چکا چوند اور عارضی سہولیات کے نام پر سچائی کے راستے سے انہیں ہٹانے کی توقع نہ رکھے ۔حقیقی انسانی اقدار کی پاسداری کا تقاضا بھی یہی ہے ۔دنیا کی ظالمانہ واردات کے خلاف ڈٹ جانے کا درس بھی امام حسن السلام کی روایت کو زندہ رکھنے والےانکے بھائی امام حسین السلام نے دیا ہے اور یہی درس کربلا ہے۔