ہیپاٹائٹس سے آگاہی پروفیسر اسرار الحق طور کا عزم۔

حاجی اسلم ایک دن گھر کی سیڑھیاں اترتے ہوئے چکر کی وجہ سے گرگیا ،اندرون شہر کے پرانے گھروں کی خوبی ہے کہ آپ ایک مرتبہ سیڑھیوں سے گریں تو اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے ایک منزل گزر جاتی ہے اور یہی حاجی اسلم کے ساتھ ہوا اس کی ٹانگوں کہنیوں اور ماتھے پر چوٹیں آئیں اور محلہ دار آصف اسے میو ہسپتال لے گیا
جہاں پر ڈاکٹرز نے اس کی چوٹوں کا علاج کیا اور اور اس کی آنکھوں کی پیلاہٹ دیکھ کر اس کی پرچی پر ایل ایف ٹی یعنی جگر کا ٹیسٹ لکھ دیا اور اسے کہا کہ نرس سے کہہ کر اپنا خون کا سمپل نکلوا کر اسے پہلی منزل پر ایمرجنسی لیبارٹری میں جمع کروادیں اور بعد میں اس کی رپورٹ لے کر میرے پاس آئیں ،ایمرجنسی میں تین گھنٹے بعد رپورٹ ملی جس پر ہیپاٹائٹس پازیٹو لکھا ہوا تھا
جس کے بعد اس کے مزید ٹیسٹ کئے گئے اور بعد میں سامنے آیا کہ حاجی اسلم کو کالایرقان لاحق ہے اسے اوپی ڈی میں رجوع کرنے کا کہا گیا جس کے بعد ان کا علاج شروع ہوا مگر ان کی حالت بگڑتی گئی اور حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ وہ تین ماہ میں کمزوری کی وجہ سے چلنے پھرنے ہی سے لاحق ہوگیا اور پھر ایک دن اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر اس جہان فانی سے کوچ کرگئے
کہنے کی بات ہے کہ ہیپا ٹائٹس چاہے کیسا بھی ہو اگر ایک بار یہ انسانی جسم میں ایکٹو ہوجائے تو پورے خاندان کے لیے مسائل شروع کردیتا ہے۔ دنیا بھر میں 28 جولائی کو ہیپاٹائٹس کی بیماری کے خلاف آگاہی کا دن اس عز م کے ساتھ منایا جارہا ہے کہ اب یہ عمل کا وقت ہے۔
ہیپاٹائٹس سے متعلق بیماری سے ہر 30 سیکنڈ میں ایک شخص کی موت کے ساتھ، ہمیں زندگی بچانے اور صحت کے نتائج کو بہتر بنانے کے لیے بہتر روک تھام، تشخیص اور علاج کے لیے کارروائی کو تیز کرنا چاہیے۔
اس دن کی آگاہی پر بات کرتے ہوئے ملک کے معروف ماہر امراض جگر ،گیسٹرو انٹالوجسٹ ،ڈاکٹر اسرارالحق طور نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس وائرس کی 5 اہم قسمیں ہیں – A, B, C, D, اور E۔ ہیپاٹائٹس B اور C سب سے زیادہ عام انفیکشن ہیں اور اس کے نتیجے میں ہر سال 1.3 ملین اموات اور 2.2 ملین نئے انفیکشن ہوتے ہیں۔
ہیپا ٹائٹس (یرقان، کالا یرقان)ایک مہلک بیماری ہے جو جگر کو متاثر کرلیتی ہے، اس مرض کی عموماً پہلے پہلے علامات ظاہر نہیں ہوتیں بعد ازاں جگر میں سوزش پیدا کرنے کے بعد چند ہی سالوں میں جگر سکڑ جاتا ہے اور اگر پھر بھی اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ کینسر کی شکل اختیار کرلیتا ہے
اکثر لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ ہیپاٹائٹس کی بیماری کا شکار ہیں اور جب یہ بیماری ذور پکڑتی ہے تو اس کا علاج شروع کرواتے ہیں اس سے پہلے اس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی اور اس کو انسانی قوت مدافعت پر چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ اس کی علامات میں چکر آنا ،قے اور دیگر عوامل ہوتے ہیں جن کو گھریلو نسخوں سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس طرح انسانی قوت مدافعت کچھ عرصے تک اسے کنٹرول میں رکھنے پر اپنا کردار ادا تو کرتی ہے مگر جب بیمار ی اپنا زور پکڑتی ہے اس کا علاج و ادویات ہی سے ممکن ہے جس کا حصول صرف سرکاری ہسپتال ہی میں ممکن ہے۔پروفیسر اسرار الحق طور نے بتایا کہ پیپاٹائٹس کے جراثیم ایک عرصے تک انسانی جسم میں سوئے رہ سکتے ہیں اور یہ اسی وقت طبی مسائل پیدا کرتے ہیں جب یہ ایکٹو ہوجائیں جن کا علاج صرف ادویات اور انجکشن ہی سے ممکن ہے اور چونکہ ملکی ابادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی سطح سے بھی نیچے ہے ان کو اس حوالے سے ادویات کے حصول میں بڑی تگ و دو کرنا پڑتی ہے کچھ کامیاب ہوجاتے ہیں مگر اکثریت اپنے حق ہی سے محروم رہتی ہے۔دنیا میں ہر 30سیکنڈ میں ایک شخص اس مرض کے باعث جان سے ہاتھ دھو رہا ہے اور ہر سال دنیا بھر میں تقریبا 257ملین افراد ہیپا ٹائٹس بی، 71ملین افراد ہیپا ٹائٹس سی، 14لاکھ افراد ہیپا ٹائٹس اے اور 20لاکھ افراد ہیپا ٹائٹس ای میں مبتلا ہوتے ہیں اس وقت تقریبا 350ملین افراد ہیپا ٹائٹس میں مبتلا ہیں جن میں سے تقریبا310ملین افراد کو کالا یرقان لاحق ہے۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں اس لیے ان سے بچا جائے یہ دونوںمرض حجام سے شیو کروانے ، غیر محفوظ طریقے سے خون لگوانے ، جسم پر ٹیٹو بنوانے یا وارثتی طور پر ماں سے بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔کالے یرقان کے لیے 2سے 3ماہ کا کورس مکمل کر لیا جائے تو اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔ہیپاٹائٹس اے اور ای گندہ پانی پینے یا بازار سے گندی اشیاءکھانے سے پھیلتا ہے۔ یہ مرض خود بخود ایک ہفتے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ پروفیسر اسرار الحق طور نے بتایا کہ اصل خطرہ کالے یرقان یعنی ہیپاٹائٹس بی اور سی سے ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ جگر کو ختم کر دیتا ہے۔اگر لوگ خون یا انجکشن لگواتے وقت احتیاط کر لیں ، حجام سے شیو کرواتے وقت اپنے سامنے بلیڈ تبدیل کروائیں اور جسم پر ٹیٹو بنوانے سے گریز کریں تو ہیپاٹائٹس بی اور سی کی روک تھا م ممکن ہے۔ہیپا ٹائٹس اے اور ای (پیلا یرقان)کے مریضوں کی تعداد میں بھی پاکستان میں اضافہ ہورہا ہے جس کی اہم وجہ گندے پانی کا استعمال اور بوسیدہ اور سڑا ہوا خوراک کا استعمال ہے جس سے اس مرض کے پھیلاﺅکی شرح بڑھ جاتی ہے۔ ہیپا ٹائٹس سی حمل کے دوران خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اس لئے حاملہ خواتین حمل سے پہلے ہیپا ٹائٹس ای کی ویکسین ضرور لگوائیں ہیپا ٹائٹس کا مرض ایک شخص سے دوسرے شخص کو استعمال شدہ بلیڈ، سرنج، ہیپا ٹائٹس کے مرض میں مبتلا مریض کا خون دوسرے شخص کو لگانے، دندان ساز کے غیر سٹریلائزڈ آلات، آلات جراحی و دیگر ذ سے منتقل ہوتا ہے۔پاکستان کے اندر تقریباً 12 ملین لوگ ہیپاٹائٹس بی یا سی میں مبتلا ہیں جبکہ ہر سال تقریباً 150,000 نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔ اس جان لیوا مرض میں مبتلا مریض بے خبر رہتے ہیں۔ انھوں نے آگہ کیا کہ کالے یرقان کی علامات میں آنکھوں کا پیلاہو جانا،تھکاوٹ محسوس ہونا، بھوک میں کمی،جلد پر خارش،متلی آنا،ہاتھوں اور پاو¾ں کا سن ہو جانا اور بخار ہیپاٹائٹس کی علامات ہیں جبکہ یہ مرض جگر میں سوزش کا باعث بھی بنتا ہے۔ ہیپاٹائٹس کی بڑھتی ہوئی بیماری کی روک تھام کیلئے سکریننگ بارے شعور اجاگر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس کے بغیر علاج معالجے پر کروڑوں روپے کے اخراجات اور شرح اموات میں کمی لانا ممکن نہیں ہوگا جبکہ اس مرض سے بچاو¾کیلئے ہمیشہ ابلا ہوا پانی ٹھنڈا کر کے استعمال کیا جائے، کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا نہ بھولیں، کٹے ہوئے پھل سبزیا ں اور کھلے عام گندی جگہوں پرکھانے سے پرہیز کیاجائے۔

articlecolumnsdailyelectionsgooglenewspakistansarzameentodayupdates
Comments (0)
Add Comment