بادشاہ دوقسم کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم میں تو وہ بادشاہ ہیں جو واقعی بادشاہ ہوتے ہیں دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو مزاجا بادشاہ ہوتے ہیں۔
میرے نزدیک دوسری قسم کے لوگوں کا کام مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو بادشاہ کہلوانے کے لئے لوگوں کے دلوں میں بسنا پڑتا ہے۔ سوچوں کی دنیا میں ڈیرے لگانا پڑتے ہیں۔
آنکھوں کو اچھا بلکہ بہت ہی اچھا لگنا پڑتا ہے۔ سب کے مزاج کے مطابق بات کرنا پڑتی ہے اور بات سے بات نکال کر ایک نئی بات بنانا پڑتی ہے اور مجموعی طور پر لوگوں کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔ معتدل مزاج اور سچا بادشاہ جب لوگوں سے ملتا ہے تو لوگ اس کو دیکھ کر اور وہ لوگوں کو دیکھ کر خوش ہوجاتا ہے۔
یوں دورویہ ٹریفک چلنا شروع ہوجاتی ہے اور یہ ٹریفک کی رفتار آسمان سے باتیں کررہی ہوتی ہے۔ خوش رہنا اور سب کوخوش رکھنا اتنا بھی آسان نہیں ہوتا اس سارے کام کے لئے جان جوکھوں کا سا کام کرنا پڑتا ہے۔
سرد گرم سب کچھ سہنا پڑتا ہے اچی نیویں کو دل میں خندہ پیشانی سے جگہ دینا پڑتی ہے تب جا کر لوگوں کے دلوں میں جگہ ملتی ہے۔ کہیں بھی جگہ لینے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔
ظاہری اختیار کے بغیر بظاہر ممکن نہیں لیکن اس دنیا میں کیا نہیں ہوتا تاہم یہ بہت بڑی مینیجمنٹ ہے اور اس کی تکمیل اللہ اکبر۔
اللہ تعالی نے بوقت تخلیق آدم سے عہد لیا تھا اور اس عہد کی تکمیل میں بھی ورائٹی ہے اور پھر انسان کو دنیائےارض وسما کے ورائٹی شو میں آکر فل فلیج کردار ادا کرنا ہوتا ہے اور کردار کے تقاضے نبھا کر خلقت اور خالق کی بارگاہ میں سرخرو ہونا پڑتا ہے۔
ہمارے شفیق رانا محمدجمیل مرحوم کہا کرتے تھے کہ عالم بالا عالم زیریں کی ڈیٹو کاپی ہے اور یہ بات میرے سر سے گزر جاتی تھی اب سمجھ آئی ہے کہ جو نیچے کی کہانی ہے وہی آگے دہرائی جائے گی۔ سچ کہا سیانوں نے کہ جو بوو گے سو کاٹو گے۔
میں نے ایک مزاج کے بادشاہ کے سنگ کچھ وقت گزارا ہے۔ نام گلریز محمود اختر اور معروف نام بادشاہ۔ بچپن اور لڑکپن فلمیں دیکھنے اور فٹ بال کھیلنے میں گزار دیا اور پھر فٹ بال سے عشق شروع کردیا۔
فٹبال اور زندگی کی گیم بہت ہی ملتی جلتی ہے۔ کہیں کھیلنا پڑتا ہے اور کہیں کھیلانا پڑتا ہے۔ کہیں بال کو گول میں پھینکنا پڑتا ہے اور کہیں بال کو ضائع کرنا پڑتا ہے۔ کہیں مخالف کی صفوں میں گھسنا پڑتا ہے اور کہیں ان کو ڈاج دینا پڑتا ہے۔ کہیں سپیڈ لگانا پڑتی اور کہیں جوں کی طرح رینگنا پڑتا ہے۔
کہیں جمپ کرنا پڑتا ہے اور کہیں لیٹ کر کک کرنا پڑتی ہے۔ یہی فٹ بال ہے اور کچھ ایسے ہی زندگی کے داو پیچ ہیں۔ ہاں دونوں میں فاول کھیلنے کی اجازت نہیں ہے اور بصورت فاول فوری وسل کا بج جانا رول آف لاء ہے۔ اچھی زندگی گزارنے کے لئے شاید اچھا فٹ بالر ہونا ضروری ہے۔
مذکورہ بادشاہ ایک بہترین فٹ بالر تھا اور پھر اس نے اسی ڈسپلن۔ لگن اور جوش سے زندگی گزاری تو لوگوں نے اس کو بادشاہ مان لیا اور پھر تو ہو گئی بادشاہ بادشاہ۔ بادشاہ نے بھی بادشاہ ہونے کا حق ادا کردیا۔
بنیادی طور پر وہ ایک مقامی سکول میں لیب اسسٹنٹ تھا۔ اپنے فرائض کی ادائیگی میں اس قدر یکسوئی کہ دھوپ ہو یا سایہ وقت کی قدروقیمت اس پر واضح تھی انگریز ٹائم اور بادشاہ گھڑی کی سوئی پر نظر رکھتا تھا۔
اپنے بوس کی مرضی و منشا کا فلسفہ بھی وہ خوب جانتا تھا بلکہ اس فلسفے کی روح بھی جانتا تھا۔ وہ ایک خاندان کا سربراہ بھی تھا۔
اپنی بوڑھی ماں سے وفاشعاری کوئی اس سے سیکھے اور بہن بھائیوں سے تعلق وہ آخری حد تک نبھانا چاہتا تھا بہرحال اس کو آخری حد کے خاتمےکے تعین کا کچھ پتہ نہیں تھا اس لئے اس نے تو حد کردی۔
اپنے بیوی بچوں کا خیال رکھنا اور بچوں کی تعلیم وتربیت اس کا خواب تھا اور یہ خواب پورا کرتے کرتے سپرد خاک ہو گیا یقیننا خاک گل گلزار کو جنم دیتی ہے اللہ مسبب الاسباب ہے۔
یار بیلیوں سے ہر وقت کھلی گپ شپ لگانا وہی روزانہ کی بنیاد پر ضروری سمجھتا تھا اور جو جو اس کے سامنے آتا تھا اس کا ہو جاتا تھا۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا وہ غیر اخلاقی سمجھتا تھا بلکہ اس کا واسطہ ہی پھولوں سے تھا اور پھولوں کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھا اور پھولوں کی مہک سے اپنی زندگی کے باغ کو مہکتا رکھنا چاہتا تھا۔
بادشاہ ویسے میراعزیز تھا لیکن اس سے بڑھ کر اس نے میرے ساتھ دوستی کر لی تھی اور میرے بارے میں وہ محبت اور اخلاص کے جذبات رکھتا تھا جن کو بیان کرکے مجھے اپنے آپ میاں مٹھو بننا پڑتا ہے۔
اس سے ہٹ کر وہ ایک سوشل ورکر بھی تھا اور ہر چیز کا ایک استعمال ہوتا ہے۔ اس نے مجھے خلق خدا کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ میری اس سے ہفتے میں ایک دن ملاقات ہوتی تھی اور اس کے ساتھ دو تین افراد ضرور ہوتے تھے اور وہ ان کی مدد کا خواہشمند ہوتا تھا۔ خوش پوشی اور خوش لباسی کے تقاضوں سے آگاہ تھا۔ لہذا روزانہ حمام پر اپنی نوک پلک سنوارنا بہت ہی ضروری سمجھتا تھا۔ اپنے ارد گرد کے ماحول پر پوری طرح نظر رکھتا تھا اور ہر کسی کی خوشی اور غم میں میری شمولیت کو یقینی بناتا تھا یوں وہ تعلق کے تقاضے نبھانے بھی ضروری سمجھتا تھا۔ اپنے ہم وطنوں کی طرح وہ ووٹ کی اہمیت تو شاید ہی جانتا ہو تاہم وہ سیاسی گفتگو کا بڑا ہی رسیا تھا بلکہ سیاست کا تو پورا رس نکالتا تھا۔ میرے بارے میں اس کا خیال تھا کہ میں ملازمت کے پس منظر کے پیش نظر اندر کی بات جانتا ہوں اور پاکستان کی سیاست میں اصل بات ہی اندر کی ہوتی ہے اور میرے ساتھ گفتگو کرکے یقیننا وہ مایوس ہوتا ہوگا اور دل ہی دل میں کہتا ہوگا “ایہہ وی ساڈے ورگا ای اے”۔ ٹی وی کے پروگرام اور کرکٹ کا میچ پہلے ذوق شوق سے دیکھتا تھا اور پھر ان سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر وہ ایک محقق اور دانشور کی حیثیت سے خوب تبصرے کرکے اپنے ملنے والوں کو مستفید بھی کرتا تھا مرعوب بھی کرتا تھا اور خوش بھی کرتا تھا بلکہ زیادہ خوش ہی کرتا تھا مزاج شناس تھا اور کسی کی دل آزاری کرنا اس کی سرشت میں ہی نہیں تھا۔ ہر ملنے والے کو سمائل دینا اور گرمجوشی سے مصافحہ اور معانقہ کرنا لازم سمجھتا تھا۔ وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ بقول ڈاکٹر ریاض مجید(وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے۔۔ رو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے) حوصلہ دینے والے بھی ایک وقت پر آکر ٹوٹ جاتے ہیں اور اندر ہی اندر پھوٹ کر روتے ہیں جس کی خبر صرف دل کو ہوتی ہے اور دل بھی کوئی پتھر تو نہیں ہے۔ خون اور گوشت کا لوتھڑا ہے۔ بالآخر یہ بھی متاثر ہوجاتا ہوگا اوپر سے رات بھی بڑی خوفناک چیز ہے۔ انسان اور رات ویسے بظاہر تو لازم وملزوم ہیں اور اللہ تعالی نے آرام کے لئے رات بنائی ہے۔ اگر دل حادثات اور حوادث سے پر ہو جائے تو راتوں کو بھی جاگنا پڑتا ہے اور دل خانماں خراب کا کیا اعتبار کسی وقت بھی ضرورت سے زیادہ دھڑکنا شروع کردے اور اگر گاوں اور ہسپتال کا درمیانی فاصلہ بھی کافی ہو تو ایسی صورت میں تو انسان دل چھوڑے یا نہ چھوڑے دل انسان کو چھوڑ جاتا ہے اور ہنستا کھیلتا ناچتا کودتا اور گپ شپ لگاتا بادشاہ بھی نعش بن کر سب متعلقین کو رونے پر مجبور کردیتا ہے۔ جولائی کی دسویں کا دن ابھی طلوع ہونے جارہا تھا فون پر گلریز محمود اختر بادشاہ کی وفات حسرت آیات کی خبر دی گئی اور یوں بادشاہ کی بادشاہی کے خاتمے کا اعلان ہو گیا۔ مہر علی ایہہ جھوک فناہ دی۔۔قائم دائم ذات خدا دی ۔۔۔تیری وسدی وی جھل دی اے
انا للہ و انا الیہ راجعون