قومی معیشت کو “بیک آن ٹریک” لانے کی باتیں ہو رہی ہیں مختلف نسخے بتائے جا رہے ہیں، ٹوٹکے آزمائے جا رہے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب ڈیل پر ہمارے سابقہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ شہباز شریف، اسحاق ڈار، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان و دیگر اس حوالے سے مبارکبادیں وصول کرتے ہوئے پھولے نہیں سماتے تھے۔ ابھی اس معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ عوامی معیشت زلزلے کا شکار ہونے لگی۔ طے شدہ شرائط کے مطابق بجلی گیس کے نرخوں میں اور مختلف ٹیکسوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ بجلی گیس کی قیمتیں عملاً آسمان کو چھونے لگیں عوام بلبلا اٹھے۔حالیہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ عام لوگ بغیر کسی سیاسی جماعت کی کال کے سڑکوں پر نکلے، بجلی کے بلوں کو جلایا اور ادائیگی سے انکار کیا یہ سول نافرمانی کی ابتدائی صورت ہے غیر منظم انداز میں، بغیر کسی لیڈر کے عوام کا اس طرح سڑکوں پر نکلنا اور بلوں کی ادائیگی سے انکار کرنا اور اس پر مزید سرکاری اہلکاروں کو مارنا پیٹنا بغاوت کے ابتدائی آثار ہیں.
غریبوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کیلئے چند سالوں سے نیپرا نے ماہانہ 200 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو ’پروٹیکٹڈ‘ صارفین کا درجہ دیا ہوا ہے جن سے ماہانہ 10.06 پیسے تک بجلی کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ بجلی صارفین کو یہ درجہ حاصل کرنے کے لیے مسلسل چھ ماہ تک 200 یونٹس یا اِس سے کم بجلی استعمال کرنا ہوتی ہے۔تاہم اگر یہ صارفین کسی ایک ماہ کے دوران بھی 200 سے ایک یونٹ بھی زیادہ بجلی استعمال کریں گے تو اّن کے استعمال شدہ یونٹس کا شمار اگلے سلیب میں کیا جائے گا یعنی 10 روپے فی یونٹ سے قیمت بڑھ کر 27.14 روپے تک پہنچ جائے گی۔
ہمارے دانشور حکمرانوں اور ان کے پالتو ایجنٹوں نے معاملات کی تہہ تک پہنچنے اور مسائل کے حل کی طرف قدم بڑھانے کے بجائے معاملات کو ایک نئے رخ کی طرف موڑ دیا ہے۔ واپڈا کے ملازمین، چھوٹے اور بڑے اپنے اپنے گریڈوں کے مطابق مفت بجلی سے استفادہ کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا گیا اور معاملہ اس طرح ابھارا گیا کہ جیسے بجلی مہنگی ہونے کی کلیدی وجہ اہلکاروں و افسران کا مفت بجلی استعمال کرنا ہے اور اگر یہ رعایت واپس لے لی جائے تو معاملات درست ہو جائیں گے۔ یہ بات قطعاً غلط اور دھوکہ و فریب پر مبنی ہے۔ ایسا کرنے سے ہزاروں نہیں لاکھوں غریب و مسکین ملازمین شدید مالی مسائل کا شکار ہو جائیں گے۔ لیکن معاملات کا رخ بدلنے والوں کے پیش نظر بھی شاید ایسا ہی کرنا ہے۔
جاری بدحالی اور بدامنی میں اضافے کے ذریعے پاکستان کو شدید مشکلات کا شکار بنانا، ففتھ جنریشن وار کا اولین ہدف ہے اور ایسا کرنے سے معاملات مزید اسی سمت میں آگے بڑھیں گے۔ بجلی کے ہوشربا بلوں کی وجہ بجلی کی پیداواری لاگت ہے، بجلی پیدا کرنے اور سپلائی کرنے والی کمپنیوں کی لوٹ مار ہے۔ اس لوٹ مار کو ہم نے، ریاست پاکستان نے قانونی تحفظ دے رکھا ہے، آئی پی پیز کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے ہیں۔ جنکی بنیاد پر یہ کمپنیاں بھاری قیمت وصول کر رہی ہیں۔ ذرا غور کریں ہم نے انہیں کپیسٹی چار جز دینے کا معاہدہ بھی کر رکھا ہے۔ یہ عجیب شے ہے کہ وہ بجلی پیدا کریں نہ کریں، ہم خریدیں یا نہ خریدیں لیکن کمپنیاں اپنی پیداواری صلاحیت کے مطابق ہم سے وصولیاں کرتی رہیں گی۔
سال 2023-24 کے دوران اس مد میں ہمیں 2000 ارب روپے کی ادائیگیاں کرنا ہونگی یہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ یقینا عوام کی جیبوں سے نکلے گا پھر بجلی چوری کا ایک طویل سلسلہ ہے جو ایک عرصے سے جاری ہے۔ چوری کا تعلق محکمانہ نااہلی سے ہے۔ چوری میں واپڈا اور ڈسکوز کے عاملین و ملازمین ملوث ہوتے ہیں۔ کروڑوں نہیں اربوں روپے کی بجلی چوری کی جاتی ہے۔ یہ چوری کہیں دور دراز علاقوں میں نہیں بلکہ بڑے شہروں میں سرعام ہوتی ہے۔ اس چوری کا بوجھ بھی ایماندار صارفین کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔ پھر لائن لاسز بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ گرڈ سے ترسیل کے دوران، صارف تک بجلی پہنچانے کا نظام پرانا اور فرسودہ ہونے کے باعث بجلی کی ایک مخصوص مقدار ضائع ہو جاتی ہے۔ ایسے نقصانات بھی عام صارفین سے وصول کئے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ مل جل کر اس قدر بوجھل ہو گیا ہے کہ عوام کی بس ہو گئی ہے۔ اب ان کی ادائیگیوں کی استعداد مکمل طور پر جواب دے گئی ہےکہ نااہل و کرپٹ حکمران عام طور پر عوامی موڈ جاننے میں ناکام رہتے ہیں حتیٰ کہ بغاوت ہو جاتی ہے، جذبات ابل کر ہر شے کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایسی ہی تاریخ اپنے آپ کو یہاں پاکستان میں دہرانے جا رہی ہے عوامی غصہ، بغاوت کی شکل اختیار کرتا نظر آ رہا ہے جبکہ حکمران مکمل طور پر بے حس اور بے عمل نظر آ رہے ہیں۔ اللہ خیر کرے۔