پاکستان کا شروع سے ہی یہ المیہ رہا ہے کہ ملکی مفاد کو سیاست پر قربان کرنے کی روایت کو آگے بڑھایا گیا ۔
سارے سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کا طریقہ کار ضرور مناسب تصور کیا جاتا رہا ہے مگر یہاں ہٹ دھرمی اور صوبائی و لسانی بنیادوں پر سیاست کو قومی اتحاد اور یک جہتی کے دھارے میں لانے کی بجائے ذاتی مفادات ،تعصبات ،علاقائی برتری کے زعم کی بنیادوں پر استوار کی جاتی رہی ہے ،زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ قومی مفاد کے میگا پراجیکٹس بھی سیاست کی نذر کردیئے جائیں
ایسا ایک بار نہیں بلکہ بار بار ہوتا رہا ہے ،ہر بار ہمیں محب وطن اہل دانش کسی سیلاب کے آنے سے پہلے پیش بندی کا مشورہ بھی دیتے ہیں ،قومی مفاد کا تو تقاضا یہی تھا کہ ہر طرح کے جانی و مالی نقصانات سے بچنے کی خاطر کالا باغ ڈیم جیسے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا مگر بدقسمتی یہ ہے کہ قوم نے ہجوم بن کر سوچنے کی روایت ترک نہیں کی
سیاست میں بالغ نظری کا فقدان رہا ،ہم نے کبھی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ ہی نہیں کیا ،جو بھی حکومت آئی اسے عوام دشمن سمجھ کر مخالفت برائے مخالفت شروع کردی اور ملکی مفادات کو یکسر نظر انداز کردیا
اس طرح کے رویوں کے پنپنے پر بربادی کے لئے ہمیں پھر کسی دشمن کی بھی ضرورت نہیں رہی کیونکہ اس کام کیلئے ہم مکمل طور پر خود کفیل ہیں ۔پاکستان بے تحاشا وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود صرف بدنظمی اور ہٹ دھرمی کے سبب خسارے کا بوجھ اٹھائے رکھتا ہے ۔ہمارےہاں مناسب بارشوں سے پانیوں کو ڈیمز میں ذخیرہ کرنے کا عمل کیوں فروغ نہیں پاسکا ،ہمارے دوست چین نے ہزاروں ڈیمز بناکر تعمیر وترقی کی نئی تاریخ رقم کردی ہے ۔پاکستان کے پیچھے رہ جانے کی بنیادی وجہ بھی قوت فیصلہ کا فقدان رہا ہے ،گزشتہ سے پیوستہ حکومتوں نے جب کالا باغ ڈیم بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا تو پھرسیاست بچانے کیلئے پیچھے ہٹنے سے سراسر قوم کا نقصان ہوا ہے اور ہر سال بارشوں کے موسم ہماری اس نااہلی کا پردہ چاک کرکے ہمیں بے یارو مددگار بلکہ لاچار بنا دیتے ہیں ،ہمارے پاس موسمی تغیرات سے نمٹنے کی صلاحیت ہے مگر سیاست نے ہمیں بربادی کے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے ۔ ابھی دو سال پہلے ماحولیاتی تبدیلی کے طفیل شدید بارشوں کی وجہ سے پاکستان کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہی نہیں ہوا، بے شمار بے گناہ قیمتی جانوں کا دکھ بھی اٹھانا پڑا۔اس سال پھر شدید بارشوں کی پیشبگوئی کی جا رہی ہے ۔ کیا پھر ہمارے معصوم بوڑھے بچے اور خواتین بارشوں کی شدت کا نشانہ بنیں گی؟۔کیا پھر پاکستان کا اربوں ڈالر کا نقصان ہوگا؟۔کیا ہم ان شدید بارشوں کو کنٹرول نہیں کر سکتے؟۔کر سکتے ہیں،بشرطیکہ کالاباغ ڈیم سمیت آبی منصوبوں پر تیزی سے عمل کریں ۔
اندازہ لگائیں کہ اگر ہم دریاؤں کے پانی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گئے تو واٹر اکارڈ 1991 کے مطابق ہر صوبے کے پانی میں کتنا اضافہ ہوگا؟
سندھ 15.21
پنجاب 10.94
خیبر پی کے 6.28
بلوچستان 4.84
پاکستان 37.27 ملین ایکڑ فٹ
تو کیا ایسا منصوبہ جس سے پاکستان کی ترقی میں 75 ارب ڈالر سالانہ کا اضافہ ہو اور شدید بارشوں اور سیلابوں سے اربوں ڈالر کا نقصان بھی نہ ہو اور نہ ہی بے گناہ انسانوں اور مویشیوں کی اموات ہوں گی ۔تو پھر اس منصوبے کی مخالفت ملک و قوم کے ساتھ غداری کے سوا کچھ نہیں ۔ اپنے ہاتھوں سے خود کو برباد کرنے کی وجہ سے ہمارا پیارا پاکستان غیروں کے قرضوں میں پھنسا تڑپ رہا ہے اور غیور عوام کو نجات دلانے کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آ رہا!کالاباغ ڈیم کی تعمیر ایسا ہی منصوبہ ہے جو پاکستان کی ترقی کے لئے سنگِ میل ہوگا مگر چند غداروں کے خوف سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر نہ کرکے ہم سب پاکستان کو ناکام ریاست بنانے میں کردار ادا کرنے کے گناہگار ہو رہے ہیں۔اب تک بہت دیر ہوچکی ہے ۔قوم کو یکجا ہوکر سوچنا ہوگا اور ملک کو بربادی سے بچانے کی خاطر کالا باغ ڈیم جیسے قومی مفاد کے میگا پراجیکٹس کیلئے تحریک چلانا ہوگی ،اس پر شاعر شعور زاہد عباس سید کے شہرہ آفاق گیت کا مکھڑا پیش کرکے اجازت چاہوں گا ۔
اب نہ تاخیر کریں
ڈیم تعمیر کریں ۔