احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
کہتے ہیں کہ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں ۔دیکھنے والوں کو بعض اوقات صرف یہ ایک رخ ہی نظر آتا ہے جس سے وہ اپنی راۓ قائم کرلیتا ہے ۔جبکہ اس کے برعکس تصویر کا دوسرا رخ جو پہلے منظر سے بہت مختلف ہوتا ہے دیکھے بغیر کسی بارے میں کوئی حتمی راۓ کرنا بےحد مشکل کام ہے ۔تمام انسانوں کے دیکھنے اور سمجھنے کا اپنا اپنا انداز اور اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے ۔یہ دیکھنے والے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کسی پانی کے گلاس کودیکھ یہ اندازہ کر لے کہ وہ آدھا خالی ہے یا آدھا بھرا ہوا ہے ۔
جس کی تخلیق ہے یہ ہاۓ وہ احساس لطیف
یہ حقیقت ہے بجا تاج محل پتھر ہے
چند دن قبل سوشل میڈیا اور الیکٹرنک میڈیا پر سانگھڑ میں ایک اونٹ کی ٹانگ کاٹنے کے واقعہ نے پورے معاشرہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔اونٹ کی دہاڑیں اور آنسو دیکھ کر لوگ لرز اٹھے تھے ۔ہر جانب سے اس واقعہ کی مذمت ہوئی ۔ہر دل دکھی ہوا ۔ملزمان کی گرفتاری کی خبریں بھی سامنے آئیں ۔بہت سے لوگوں کی جانب سے اس اونٹ کی مصنوعی تانگ لگوانے کی پیشکش بھی سامنے آئی ۔اس دل خراش واقعہ نے کئی دن تک لوگوں کے دلوں میں درد پیدا کئے رکھا ۔ظالم کو سزا دینے کی باتیں اور مطالبے بھی کئے گئے ۔اور پھر واقعہ پر یکایک پرسرار خاموشی چھا گئی ۔کوئی نہیں جانتا کہ پھر کیا ہوا ؟ اونٹ اور اسکے مالک کا اب کیا حال ہے ؟ یقینا” کسی سمجھوتے نے اس واقعہ کو ماضی کا حصہ بنادیا ہوگا ۔واقعہ ٹانگ کاٹنے کا ہو یا ذاتی دشمنی پرکسی بھینس کو زندہ جلانے کا سب ہی قابل مذمت ہیں ۔
اسی طرح آج تصویر کا دوسرا رخ ایک ویڈیو کی صورت میں سامنے آیا تو مجھے بھی اس دکھ میں کچھ کمی محسوس ہوئی بلکہ یوں سمجھیں کہ پڑھ کر اور دیکھ کر بےحد خوشی محسوس ہوئی ۔ویڈیو دیکھ کر احساس ہوا کہ انسانیت ابھی زندہ ہے جہاں سندھ میں ایک زمیندار نے اونٹ کو کھیت میں جانے پر اس کی ٹانگ کاٹ دی وہیں دوسری جانب دیکھیں کی عید کے دن سیر وتفریح پر آنے والے کچھ نوجوان جنہوں نے روہی (چولستان) کےویران صحرا میں اس شدید ترین گرمی میں ایک دلدل میں کئی دن سے بری طرح پھنسے ہوۓ اونٹ کو دیکھا اور اس کو ریسکیو کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی پہلے اسے کھانا پانی دیا تاکہ وہ تازہ دم ہو جاۓ اور آخر کا ر اس اونٹ کو کئی گھنٹوں کی لگاتار محنت اور جدوجہد کے بعد بحفاظت دلدل سے نکال لیا اور اسکی زندگی بچا لی ۔ بے شک رحم دلی ایک ایسی زبان ہے جسے بہرا بھی سن سکتا ہے اور اندھا بھی دیکھ سکتاہے ۔یہ ویڈیو دیکھ کر ان نوجوانوں کی انسانیت دوستی کو سلام پیش کرنا پڑتا ہے ۔ ویڈیو کے مطابق یہ نوجوان شہری بچے دکھائی دیتے ہیں جن کا یہ جذبہ قابل ستائش ہے جسکی جتنی بھی تعریف کی جاۓ کم ہے ۔بےشک اسے ہی انسانیت کہتے ہیں ۔ویڈیو میں ان نوجوانوں کی تمام کاروائی محفوظ ہے ۔کوئی ان کانام تک نہیں جانتا وہ کسی حکومتی اعزاز یا شاباش کے بھی طلبگار نہیں ہیں ۔لیکن ان کی اس کاروائی نے ہماری قوم پر سے جانوروں پر ظلم کا داغ دھو دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے اچھے اور برے لوگ ہر قوم میں ضرور ہوتے ہیں لیکن معاشرے کے چند لوگوں کی وجہ سے پوری قوم کو قصور وار ٹھہرانا درست نہیں ہوتا ہے ۔کہتے ہیں کہ مثبت سوچ اور رویے ہی معاشرے میں تبدیلی لاتے ہیں ۔قومیں ایسے ہی بنتی ہیں ۔ہمیں ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔اور اس ویڈیو کو ارباب اختیار تک بھی ضرور پہنچنا چاہیے ۔
یہ اسی عید الضحی ٰکے دوران کا واقعہ ہے جو علاقہ ” چھوٹا مانا والا “پر پیش آیا جہاں پر ایک غیر ملکی مشروب ساز فیکڑی کی بوتلوں سےلدے ہوے ٹرک کا ایکسیڈنٹ ہوا اور ڈرائیور گاڑی چھوڑ کر بھاگ گیا ۔ جونہی ہماری عوام کی نظر ان بوتلوں پر پڑی تو ساری عوام سڑک پر پڑی ان بوتلوں پر ٹوٹ پڑی اور صرف پانچ منٹ میں اٹھا کر اپنے گھروں کو لیکر فرار ہوگئی ۔ کہتے ہیں کہ گاڑی کا ڈرائیور گرفتاری کے خوف سے بھاگ گیا تو مرد خواتین بچوں اور بڑوں نے بلا تفریق لوٹ مار شروع کردی اور مال غنیمت سمجھ کر ٹوٹ پڑے اس لوٹ مار کی وڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آئی تو لوٹ مار کا یہ منظر دیکھ کر حیرانی یہ نہیں ہوئی کہ ایسا کیوں ہوا ؟ بلکہ حیرانی یہ ہوئی کہ لوگ کس قدر بے حس ہو چکے ہیں ؟میں سوچ رہا تھا کہ یہ چند بوتلیں مفت کا مال سمجھ کر گھروں کو لے جانے والے بھی ہمارے مسلمان بھائی ہی تھے۔ جو اس لوٹ مار میں بھی سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔دکھ اس بات کا بھی ہےکہ یہ اس دوران ہوا جب پوری دنیا اور پاکستان کے مسلمان سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوۓ قربانی و ایثار کے عظیم مشن کو پورا کرنے میں مصروف تھے ۔یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ قانون بےبس ہوکر رہ گیا ۔اس دوران انہیں یہ بھی احساس نہیں تھا کہ موبا ئل میں موجود کیمرے کی بےشما ر آنکھیں یہ سب دیکھ رہی ہے اور محفوظ بھی کر رہی ہیں ۔ان وڈیوز کے ذریعے شناخت ممکن بھی ہو سکتی ہے ۔اس افسوسناک واقعہ سے مجھے بڑی شرمندگی ہوئی کہ ہماری سوچ اور رویے کیسے ہوتے جارہے ہیں؟ہم ایک قوم کی بجاے ہجوم کیوں بنتے جارہے ہیں ؟میں نے اس واقعہ پرایک کالم لکھا تو میرے ایک دوست کا پیغام آیا کہ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھایا کریں اور ساتھ ہی لکھا کہ اسی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ایسے واقعات پورے ملک میں ہوتے رہتے ہیں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ایسی لوٹ مار دیکھنے میں آئی ہو ۔ایک ناخوشگوار واقعہ کے پیچھے بےشمار اچھے واقعات نظر انداز ہو جاتے ہیں ۔پھر گذشتہ روز ایسا ہی واقعہ پیر محل میں پیش آیا جہاں رات گئے اسی طرح کا ایک نجی کمپنی کا ٹریلر چک نمبر ۷۵۵ گب کے قریب سے گزرتا ہوا ہائی وے پر الٹ گیا۔گاوں والوں نے متعلقہ افراد کا بھر پور ساتھ دیا ۔ڈرائیور اور عملے کو کھانا چاے ٔاور چارپائی بستر فراہم کیا اور گاوں کے لوگوں نے خود وہاں بیٹھ کر نگرانی کی ۔مجال ہے کہ کسی نے ایک بوتل بھی اٹھائی ہو یا اٹھانے کی کوشش بھی کی ہو ۔جی ہاں یہ بھی پاکستان ہے ۔سارا پاکستا ن یکساں نہیں ہے اس ملک میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے ۔بلکل ایسا ہی واقعہ خیبر پختونخواہ میں پیش آیا وہاں بھی عوام نے اسی طرح کا برتاوُ کیا اور الٹے ہوۓ ٹرک کے مال کو اپنی حفاظت میں لے لیا اور کوئی ناخوشگوار بات دیکھنے میں نہیں آئی ۔بے شک انسانیت وہ چیز ہے جو دشمن کو بھی سہارا دینے پر مجبور کردیتی ہے اور احساس وہ چیز ہے جس میں غیروں کا دکھ بھی آپ کو اپنا لگتا ہے ۔عادتیں ،سوچ اور زندگی کے متعلق ہمارے رویے یکدم نہیں بدلے جاسکتے یہ ایک مسلسل جدوجہداور کوشش کا نام ہے ۔احسا س کے انداز بدلنے سے تصویر کا دوسرا رخ کتنا خوبصورت ہو جاتا ہے ۔اس کا ا ندازہ ان واقعات سے لگایا جاسکتا ہے ۔
نہیں ہے نہ امید اقبال اپنے کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی