تحریر : محمد ریاض ایڈووکیٹ
قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کی کاپی ڈاون لوڈ کی تاکہ پاکستانی عوام کی سہولیات و رفاہ عامہ اور ترقیاتی پروگرامز کے لئے مختص فنڈز کا مطالعہ کرسکوں ۔
یقین مانیں کامرس، ٹیکس، اکاؤنٹس اور قانون کا علم رکھنے کے باوجود میرے جیسے طالب علم کے لئے وفاقی بجٹ کے مطالعہ سے صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ بجٹ کے نام پر اس گورکھ دھندہ کو سمجھنا پچانوے فیصد پاکستانیوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بجٹ پیش کرنے سے لیکر منظوری تک کے تمام مراحل میں حکومتی اور اپوزیشن بینچوں کے درمیان ہونے والی منہ ماری، دھینگا مشتی بے جا نہیں ہورہی ہوتی کیونکہ اسمبلی میں بیٹھے ننانوے فیصد سے زائد اراکین کے لئے فنانس بل میں درج نکات کو پڑھنا، سمجھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے
یہی وجہ ہے کہ طرفین کے اراکین فنانس بل میں موجود نکات پر بحث کی بجائے طعنہ زنی، گالی گلوچ، ٹھٹا مذاق، بل کی کاپیاں پھاڑتے اور اپنے اپنے قائدین کی شان میں قصیدہ گوئی اور مخالفین کی شان میں گستاخیاں کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔
یاد رہے یہ فنانس بل یعنی بجٹ نہ تو عوامی منتخب نمائندوں کی منشاء و آراء سے بنتا ہے اور نہ ہی بجٹ تیاری کے وقت اراکین اسمبلی کو کوئی منہ لگاتا ہوگا۔ کیونکہ اب تو وزیراعظم شہباز شریف نے بھی قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران اس حقیقت کا برملا اظہار کردیا تھا کہ حقیقت ہے ہمیں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر بجٹ بنانا پڑا۔ افسوس، اک آزاد، خود مختار اٹیمی ریاست مملکت پاکستان کو اپنے سالانہ مالی معاملات کو چلانے کے لئے آئی ایم ایف جیسے بدنام زمانہ ادارے کی ڈکٹیشن لینا پڑتی ہے۔
مجھے کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہورہی ہے کہ آئندہ سال کا وفاقی بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے پہلے ہی آئی ایم ایف سے نہ صرف تیار کروایا گیا بلکہ وہیں ہی سے منظوری کے بعد صرف آئینی و قانونی تقاضوں یعنی خانہ پوری کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔
وفاقی بجٹ کے بغور مطالعہ سے یہی بات سمجھ میں آئی کہ ریاست پاکستان پر قابض اشرافیہ جس میں حکومتی و اپوزیشن اراکین سب شامل ہیں عوام کو ٹیکسوں اور لیوی کے نام پر نچوڑتے وقت اپنے مفادات و فوائد میں اضافہ کرنا ہرگز نہیں بھولتی۔
جسکی سادہ سی مثال اراکین اسمبلی کے الاونسز میں اضافہ بھی اس وفاقی بجٹ میں منظور کروایا گیا ہے۔ ہماری اشرافیہ کس قدر سمجھدار ہے آئی ایم ایف سے عوام کو نچوڑے کے لئے ہر اُس شق کو سرخم تسلیم کر لیتی ہے مگر افسوس اپنے فوائد میں اضافہ کے وقت نہ تو آئی ایم ایف کو کوئی تکلیف ہوئی اور بھلا اشرافیہ کو کیا تکلیف ہوسکتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر فرد بجلی و گیس کے بلوں کی ادائیگی کے لئے دنیا میں تشریف لا رہا ہے۔
پاکستانی معیشت کی ناکامی اور کیا ہوگی کہ معیشت کا انحصار صرف اور صرف پٹرول، بجلی و گیس کے بلوں سے ٹیکسوں کی وصولیوں تک رہ گیا ہے۔ اشرافیہ کی جانب سے ہر دور میں درآمد شدہ غیر ملکی شہریت کے حامل وزرائے خزانہ یہ بے ہودہ دعوے کرتے ہیں کہ پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے جبکہ حقیقت حال بالکل اسکے برعکس ہے۔
اگر صرف بجلی کے بل پر نظر دوڑائی جائے تو پندرہ سے زائد ٹیکس نظر آتے ہیں۔ یہ دعوی من گھڑت ہے کہ پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے۔ پٹرول پر ٹیکس، ٹال ٹیکس، منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کی خریدوفروخت پر ٹیکس، عدالتوں میں جائیں تو کورٹ فیس، سرکاری ہسپتالوں میں جائیں تو پرچی کے نام پر ٹیکس اسکے علاوہ بعض طبی سہولیات کی مکمل فیس بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔
ریلوے، ہوائی سفر پر ٹیکس، اشیائے خوردونوش وگھریلو اشیاء پر سیلز ٹیکس ۔ نہ جانے کونسی ایسی شے ہے جس پر پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے؟ وہ علیحدہ بات ہے کہ پاکستانی عوام سے نچوڑا گیا سیلز ٹیکس حکومتی خزانہ تک پہنچتا بھی ہے یا پھر صنعت کاروں اور ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے افسران کی جیبوں تک ہی محدود رہتا ہے۔
رہی سہی کسر تنخواہ دار طبقے کو انکم ٹیکس کے نام پر نچوڑ دیا جاتا ہے۔ افسوسناک اور خطرناک صورتحال یہ پیدا ہوچکی ہے کہ ہر پاکستانی کی زبان پر یہ بات آچکی ہے کہ ریاست پاکستان شہریوں سے ٹیکس تو امریکہ، یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر لے رہی ہے مگر سہولیات براعظم افریقہ کے کسی غریب ملک جیسی بھی میسر نہیں آ رہیں۔
پاکستان کے شہری سرکار کو ٹیکس بھی دیتے ہیں مگر سرکاری ہسپتالوں ، سرکاری سکولز، سرکاری یونیورسٹیوں کی بجائے پرائیویٹ اداروں میں بھاری بھر کم فیسیں ادا کرنے پر مجبورہوچکے ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی اشرافیہ کے اللے تللے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
یہی اشرافیہ پاکستان سے باہر بغیر پروٹوکول آزادی سے گھوم پھر رہی ہوتی ہے مگر اپنے ہی وطن میں اربوں روپے اپنی سیکورٹی و پروٹوکول پر خرچ کروادیتی ہے۔ خدارا مملکت پاکستان کے بارے میں سوچیں کیونکہ مملکت ہوگی تو اشرافیہ کے اللے تللے جاری و ساری رہیں گے۔