ظالمانہ ٹیکس

ڈیرے دار
سہیل بشیر منج


کسی گاؤں میں ایک گورکن ہوا کرتا تھا وہ عجیب حرکت کرتا تھا جیسے ہی کوئی نئی قبر بنتی وہ اسی رات قبر کشائی کرتا مرنے والے کا کفن نکالتا اور اسے بازار میں فروخت کرآ تا وقت گزرتا گیا
آخر کسی نے اسے قبر کی بے حرمتی کرتے دیکھ لیا اس نے یہ واقعہ گاؤں کے نمبردار کو بتایا اگلی تدفین کا انتظار کیا گیا جیسے ہی نئی قبر بنی گاؤں والوں نے قبرستان میں چھپ کر اس کی کاروائی کا انتظار کیا رات ہوتے ہی اس نے حسب معمول قبر کھودنا شروع کر دی جب اس نے تقریبا آدھی مٹی ہٹا لی تو گاؤں والوں نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اس کی خوب چھترول کی منہ کالا کر کے گاؤں کا چکر لگوایا اور اسے علاقہ بدر کر دیا اور نیا گورکن رکھ لیا گاؤں والوں کی قسمت خراب کے یہ اس سے بھی بڑا ظالم نکلا اس نے کچھ ڈاکٹروں کے روپ میں کالی بھیڑوں کو ساتھ ملایا وہ بھی رات ہوتے ہی قبر کشائی کرتا لاش نکال کر ہسپتال لے جاتا اور کفن کے ساتھ اس کے جسم میں کے جو عضاء کام آ سکتے نکلواتا اور لاش کو صبح ہونے سے پہلے دفن کر دیتا کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اس کی اصلیت سامنے آ گئی گاؤں والوں نے اس کے ساتھ پہلے سے بھی بدتر سلوک کیا اور اسے بھی نکال دیا اور پھر تیسرا رکھ لیا

بدقسمتی سے گزشتہ پچھتر سالوں سے ہمارے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے ایک سیاسی جماعت نئے ٹیکسز لگاتی ہے مہنگائی کرتی ہے اپوزیشن میں بیٹھے سیاستدان ان کے خلاف چانگریں مارتے ہیں اور جب حکومت میں آ تے ہیں تو خود بھی وہی کرتے ہیں اگر میں غلط نہیں ہوں تو ہمارے پارلیمانی نظام میں صرف حکومت ہی ہوتی ہے اپوزیشن نہیں اور یہ سب آ پس میں کزن ہیں ان کے مفادات سانجھے ہیں اگر حکومتی جماعت اپنی عیش و عشرت اور عیاشیوں کے لیے ٹیکس لگاتی ہے تو اپوزیشن دو چار بیان دیتی ہے اور پھر خاموشی سے سب مل بانٹ کر موج کرتے ہیں اور عوام جائے بھاڑ میں
حالیہ بجٹ نے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کو یکسر پریشان کیا ہے بجٹ کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ حکومت نے تمام ملکی اخراجات بجلی اور گیس بیچ کر ہی پورے کرنے ہیں کسی بھی حکومتی رکن یا بجٹ ساز کمیٹی کے ممبر سے بات کر لیں اس کے پاس بہت آسان جواب ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی تجویز پر بنایا گیا ہے تو جناب وزیراعظم آئی ایم ایف سے قرض غریب عوام کی حالت بہتر کرنے کے لیے نہیں بلکہ اشرافیہ کی عیاشیوں کو پورا کرنے کے لیے لیا جاتا ہے جس کی واپسی اسی طرح غریب کا خون نچوڑ کر کی جاتی ہے حضور بجلی کے بل میں سوا سو ٹیکس لگانے سے اگر کام نہیں چل رہا تو ایک بار وزیراعظم ہاؤس، صدر ،ججز ،آرمی افسران ،بیوروکریٹس اور تمام مراعات یافتہ طبقے کی مراعات میں کمی لا کر دیکھ لیں امید ہے ملک خسارے سے بچ جائے گا اگر پھر بھی کوئی کسر نظر آئے تو ہزاروں کی تعداد میں سرکاری گاڑیوں سرکاری گھروں کے اخراجات کم کر لیں بات بن جائے گی لیکن
میرے خیال میں آپ ایسا نہیں کر پائیں گے کیونکہ جس طرح بیوروکریسی نے نظام کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے وہ آ پ کو ایسا نہیں کرنے دیں گے
جناب وزیراعظم پھر یوں کر لیں کہ جہاں آپ نے ملکی معیشت کی بحالی کا وقت ایک سال مقرر کیا ہے اسے بڑھا کر دو سال کر لیں کیونکہ یک دم بجلی کی قیمتوں اور ٹیرف میں ظالمانہ اضافہ آپ کی محنت اور عوامی حمایت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوگا اس کے ساتھ پیپلز پارٹی کے ظالمانہ آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی فرمائیں جتنے پروڈکشن یونٹ زیادہ خرچ اور کم آؤٹ پٹ دے رہے ہیں ان سے معاہدے فورا ختم کر دیں اور صرف آ پ ہی یہ کر سکتے ہیں ورنہ سال
2032
تک یہ جونکیں ملک اور غریب عوام کا خون چوستی رہیں گی

جناب وزیراعظم آپ کی حکمرانی میں ٹیرف کے نام پر ایک ایسا خاموش قاتل عوام کے پیچھے کھڑا ہے جو کسی وقت کسی کو بھی اپنے شنکجے جھکڑ کر مارسکتا ہے برائے کرم ان ٹیرف سازوں کو طلب فرمائیں اور ان سے اس ظلم کا حساب لیں اور انہی کے ساتھ مل کر بجلی کے بلوں کے لیے کوئی ایسی ترتیب واضح کر دیں کہ دوبارہ تلمبہ کی کسی بلقیس کو بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے اپنی گڑیا کے کانوں سے بالیاں اتار کر فروخت نہ کرنی پڑیں
یا چونڈا کے کسی ارشد کو بجلی کے بل کی وجہ سے پھندے سے نہ جھولنا پڑے یا شورکوٹ کی کسی گمنام خاتون کو بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے اپنا آ پ کسی نواب کے پاس گروی نہ رکھنا پڑے
جناب وزیراعظم میرے خیال میں بلقیس ارشد اور گمنام خاتون کے ساتھ سرعام ڈکیتی ہوئی ہے اور اس میں بیوروکریسی ،جج، جرنیل، واپڈا، منسٹرز میں اور آ پ بھی شامل ہیں بجلی کی قیمتوں سے کمائی کرنے کی بجائے ملک کی ایکسپورٹ میں اضافہ کر کے دیکھ لیں میرے خیال میں بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے سال 2024 میں بے شک سڑکوں کی تعداد کم کر دیں اپنے ٹارگٹ سے کچھ پروجیکٹس کو خارج کر دیں میرے ملک کے لوگ اتنے بڑے بڑے بل ادا نہیں کر سکتے
جناب وزیراعظم خدارا ہم پر رحم فرما دیں ہم اس ملک کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے ہمیں اتنی بے رحمی سے نہ کچلیں کہ ہم اپنے ہی ملک میں قیدیوں کی طرح زندگی گزاریں جتنی جلدی ممکن ہو بجلی کی قیمتوں پر نظر ثانی فرمائیں عوام کی برداشت جواب دے چکی ہے اور یہ خودکشیوں تک پہنچ چکے ہیں ہم آپ کے اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کے شکر گزار ہیں بے شک ان اٹھارہ گھنٹوں میں چار گھنٹے کم کر لیں لیکن ہمیں باعزت زندگی گزارنے کا کوئی راستہ ضرور دکھا دیں بلا شبہ ملک اس وقت بہت نازک حالات سے گزر رہا ہے اور یہ سنتے ہمیں پچھتر سال ہو گئے ہیں جبکہ ہمارا ہمسایہ ملک ہمارے ساتھ
آزاد ہو کر دنیا کی دوسری تیسری یا چوتھی بڑی معیشت بننے جا رہا ہے سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف تو آپ فرما رہے ہیں کہ بہت سے چینی سرمایہ کار انڈسٹری لگانے پاکستان آ رہے ہیں جناب آ پ اپنی انڈسٹری چلانے میں تو ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے وہ اتنی مہنگی بجلی گیس پٹرول اور اندھا دھند ٹیکسوں میں کیسے انڈسٹری چلائیں گے اللہ کرے آ پ نے جو اعلانات کیے ہیں ان میں کامیاب ہو جائیں یہ مشکل فیصلے جلد از جلد مکمل ہو جائیں تاکہ ہم جیسے غریب اور سفید پوش لوگ باعزت زندگی گزار سکیں
حالیہ بجٹ اور اس میں لگائے گئے نئے ٹیکسز سراسر ظلم کے مترادف ہیں اگر آپ نے فوری طور پر عوامی ریلیف کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا تو شاید آپ چاہ کر بھی عوامی حمایت حاصل نہ کر پائیں

articlecolumnselectionsgooglenewspakistansarzameentodayupdates
Comments (0)
Add Comment