برآمدات ،زر مبادلہ اور ہمارے وسائل

احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان


جب بھی ملکی معیشت کی بات ہوتی ہے تو یہ تین لفظ ضرور سنائی دیتے ہیں ۔برآمدات میں اضافہ ،زرمبادلہ کے ذخائر اور قومی وسائل کی صورتحال کا بار بار ذکر پہلے تو بیشتر لوگ نہیں سمجھتے تھے مگر اب سوشل میڈیا اور الیکڑک میڈیا نے عام آدمی کو ان کے بارۓ میں شعور اور آگاہی بخش دی ہے ۔اس کے باوجود عام الناس کی ایک اکثریت ان کی اہمیت اورافادیت سے پوری طرح واقف نہیں ہوتی ہے ۔ان تینوں کے درمیان جڑے مضبوط رشتے کو ابھی بھی بہت سے لوگ نہیں جانتے ۔البتہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ زرمبادلہ ہمیں برآمدات سے حاصل ہوتا ہے اور برآمدات کے لیے قومی وسائل درکار ہوتے ہیں ۔قدرتی اور قومی وسائل سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی قدرتی وسیلہ کا جغرافیائی محدود خطے میں ایسا غیر معمولی ارتکاز ( ذخیرہ ) جس کی وجہ سے اس کا منافع حصول فی زمانہ یا مستقبل میں ممکن ہو سکے ۔یہ وسائل قدرتی بھی ہو سکتے ہیں اور ہماری محنت کی باعث بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔تمام قدرتی اور انسانی وسائل دراصل قومی وسائل ہوتے ہیں اور اکثر یہ ہماری ضرورت سے زیادہ بھی ہوتے ہیں ۔انہیں اگر دوسرے ضرورتمند ممالک کو بھیج دیا جاے تو یہ برآمدات کہلاتی ہیں اور ان برآمدات کی ادائیگی جس چیز سے کی جاتی ہے وہ زر مبادلہ کہلاتی ہے ۔ جو آج کل امریکی ڈالر کی شکل میں دستیاب ہوتی ہے ۔ہمیں اگر اپنے لیے کچھ باہر سے منگوانا یا لینا ہو تو یہی زرمبادلہ ادائیگی کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔جتنی زیادہ برآمدت ہوں گی اتنا ہی زیادہ زرمبادلہ حاصل ہوگا اور جتنا زیادہ زرمبادلہ ہو گا اتنی ہی زیادہ ہم خریداری کرسکتے ہیں ،یعنی وسائل کی برآمد سے زرمبادلہ کا حصول اور اس کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے ۔ برآمدات کے اضافے اور درآمدات کی زیادتی کے فرق کو تجارتی خسارہ کہا جاتا ہے ۔تجارتی خسارہ جتنا کم ہوتا ہے یہ بہتر معیشت کی نشاندہی کرتا ہے ۔اس خسارے کا خاتمہ صرف درآمدات میں کمی یا برآمدات میں اضافے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے ۔
پاکستان کو ان خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جو قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہے ۔جیسے زمین ،پانی ،جنگلات ،جنگلی حیات ،معدنیات ،توانائی ،اور سمندری وسائل اور ساتھ ساتھ ہماری زرعی اجناس اور پھل بھی ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں ۔ہمار ہر علاقہ اپنی اجناس اور اپنے اپنے میعاری پھلوں کی وجہ سے انفرادیت رکھتا ہے۔ یہا ں کے چار موسموںکی وجہ سے یہ یہ پھل اورسبزیاں نہ صرف معیاری ہوتی ہیں بلکہ اپنے مخصوص ذائقے کی باعث دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جاری مالی سال میں پھلوں کی برآمدات اڑتالیس فیصد اورسبزیوں کی ایک سو تیتیس فیصد بڑھ گئی ہیں ۔اسٹیٹ بنک اور ادارہ شماریات کے مطابق جولائی تا جنوری پھلوں کی برآمدات سے ملک کو تقریبا” دوسو ملین ڈالر زر مبادلہ حاصل ہوا ہے جو ایک ریکارڈ ہے ۔ہمارے ملک کے کینو ،آم اور چیری کی پسندیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔اس کے باوجود کہ ہمارا آم کی کل پیداوار کا صرف چھ فیصد ہی برآمد ہو پاتا ہے ۔
اس مرتبہ حج کے دوران یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی گئی کہ عام چیری کا پیکٹ وہاں دس ریال کا ملتا ہےجبکہ پاکستان میں یہی چیری زیادہ سے زیادہ چار سو روپے کلو دستیاب ہے قیمتوں کے یہی حالات خوبانی ،آلو بخارے،آم اور کینو وغیرہ کے تھے جن کے ریٹ زیادہ اور کوالٹی بھی پاکستانی پھلوں سے کم ہوتی ہے ۔البتہ ویلیو ایڈیشن کے بعد بڑے مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہے ۔ وہاں کی مارکیٹ میں پاکستانی فروٹس کی کوئی خاص نمائندگی دیکھنے میں نہیں آتی ۔جو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ہم ابھی تک اپنے پھلوں کو بڑی تعداد میں برآمد کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں یا پھر اس پر مناسب توجہ نہیں دے پارہے ہیں ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی فروٹس کی بہترین کوالٹی کو سعودیہ کی مارکیٹ تک پہنچانے کے لئے اگر حکومتی سطح پر اقدامات کئے جائیں تو یہ زرمبادلہ کو بڑھانے میں بہت مددگار ہو سکتا ہے ۔مگر یہ کام بہت احتیاط ، محنت اور زمہ داری کا متقاضی ہے ۔ کیونکہ ان کی کوالٹی کو برقرار رکھنا بہت اہم ہوتا ہے ۔یوں تو پاکستان کے تمام فروٹ برآمد کئے جارہے ہیں۔لیکن چند پھل مقدار اور پیداوار کے لحاظ سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔برآمد کے لیے زیادہ موزوں وہ پھل اور سبزیاں ہوتی ہیں جو زیادہ سے زیادہ دن تک خراب ہونے سے بچ سکیں ۔ان میں سیب ، کیلا ،آم ،کینو ،خوبانی آڑو وغیرہ سرفہرست ہوتے ہیں ۔ دوسری جانب پورے پنجاب خصوصی سرگودھا سے بڑی مقدار میں کینو کی ریکارڈ ایکسپورٹ اس پاکستانی پھل کی مقبولیت کو ظاہر کرتی ہے ۔ گو کینو کی چار لاکھ ٹن برآمد سے پاکستان تقریبا” بائیس کروڑ ڈالر زرمبادلہ حاصل کرتا چلا آیا ہے ۔لیکن اس کی پیداوار اور برآمد میں بتدریج کمی ہو رہی ہے ۔جو اس پھل کی صنعت سے وابستہ چار لاکھ لوگوں کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھی جارہی ہے ۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان سے چیری کی برآمد شروع ہوچکی ہے اورشاہراہ قراقرم کے راستے سے چیری کی پہلی کھیپ چین پہنچ گئی ہے۔اس چیری کی گلگت بلتستان میں خصوصی پلانٹ پر ٹریٹمنٹ کی گئی ہے تاکہ اس کی تازگی برقرار رہے ۔رواں سال پانچ سو ٹن چیری چین بھجوائی جاے گی جو ایک بڑے زرمبادلہ کی ترسیل کا باعث بنے گی ۔جو اس علاقے میں چیری کی پیداوار میں مزید اضافے کی وجہ بن جاۓ گی ۔دیگراگر اس قسم کے پھلوں کو بذریعہ سڑک بھجوانے کا انتظام کیا جاے ٔ تو یہ پھل جلد اپنی منزل تک پہنچ کر خراب ہونے سے بچ سکیں گے ۔مقامی چیری کی اس طرح برآمد ویلیو ایڈیشن کی ایک عمدہ مثال اور سڑکوں کی افادیت کا خوشگوار احساس بھی ہے۔
اب آتے ہیں اپنے علاقے کے آموں کی جانب جو پھلوں کا بادشاہ کہلاتا ہے ۔پاکستان دنیا بھر کے تریپن ممالک جن میں مڈل ایسٹ ۔امریکہ اور یورپ بھی شامل ہیں کو ہر سال تقریبا” نوے لاکھ ٹن آم برآمد کرتا ہے۔ جو ہماری کل پیداوار کا صرف چھ فیصد ہے جبکہ پاکستانی آم ذائقے اور پسندیدگی کے اعتبار سے منفرد ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہے ۔صوبہ پنجاب میں آم کی پیداوار سولہ ٹن فی ہیکڑ جبکہ یہی سندھ میں چھ ٹن فی ہیکڑ ہوتی ہے ۔جنوبی پنجاب اور سندھ آموں کی پیداوار کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں ۔جنوبی پنجاب کی معیشت کا تو بہت بڑا دارو مدار ہی ان آم کے باغات سے منسلک ہے ۔ پاکستان کا شمار آم کی پیدوار اور اسکی برآمد کے حوالے سے دنیا کے بڑے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے ۔پاکستان کا آم ذائقے اور پسندیدگی کے لحاظ سے منفرد ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں مقبول ہے۔ ابھی بھی پاکستانی آم کی برآمدات میں اضافے کی بڑی گنجائش موجود ہے کیونکہ آم کا نوے فیصد حصہ اندرون ملک ہی استعمال ہو جاتا ہے ۔پاکستان میں بدقسمتی سےآم کے باغوں میں بھی تیزی سے کمی آرہی ہے ۔درختوں کی بے تحاشا کٹائی سے یہ پھل دار درخت اپنا وجود کھو رہے ہیں ۔جو آم کی پیداوار میں کمی لانے کا موجب ہے اور ساتھ ساتھ موجودہ موسمیاتی تبدیلی اس کی پیداوار کو متاثر کررہی ہے ۔جو حکومتی توجہ کی منتظر ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ آم کی فصل میں اضافے کے لیے موسمی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال ساتھ ساتھ اسے بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا جاۓ۔نئی منڈیاں تلاش کی جائیں ،برآمدات کو فروغ دینے کے لیے فضائی کرایوں میں کمی لائی جاۓ ،آم پراسیسنگ انڈسٹری کو فروغ دیا جاۓ ،فصل کو بیماری سے بچانے کے لیے بہتر زرعی ادویات کی فراہمی کو ممکن بنایا جاۓ ،باغات کی کٹائی پر پابندی لگائی جاے ٔ ،نئے باغات لگانے کی حوصلہ افزائی کی جاۓ ،ذرائع آمد ورفت بہتر بناۓ جائیں اور سب سے اہم یہ کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے آگاہی اور اس سے حفاظتی اقدامات کے بارے میں کسان کو رہنمائی مہیا کی جاۓ ۔تاکہ زیادہ اور معیاری پیداوار میں اضافہ ہو سکے ۔
ہماری برآمدات میں اضافہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ہم اپنے معاشی حالات کی موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اپنے مقامی پھلوں پر توجہ دے کر ناصرف ایک بڑا زرمبادلہ حاصل کرسکتے ہیں بلکہ ہم اس شعبہ میں ویلیو ایڈیشن کر کے بین الااقوامی توجہ بھی حاصل کرسکتے ہیں ۔ضرورت بس ذرا سی حکومتی اور عوامی انفرادی واجتماعی توجہ اور ترجیحات کی ہے ۔

Comments (0)
Add Comment