غلام حیدر شیخ
غضب ہے خدا کا قہر نازل کر رکھا ہے بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے جب کہ بجلی کے ماہانہ بل دیکھ کر غشی چھا جاتی ہے ، ان بجلی کے بلوں پر آسمانی بجلی کیوں نہیں گرتی
تین افراد پر مشتمل گھرانے کو جو کہ جھونپڑی نما گھر میں رہتے ہیں انہیں بھی تیس چالیس ہزار کے بل بھیج دیئے جاتے ہیں جب کہ ان علاقوں میں آٹھ سے دس گھنٹہ لوڈ شیڈنگ بھی رہتی ہے ، صارفین بجلی کی اصل قیمت سے کہیں زیادہ اس پر عائد ٹیکسز اورفیسیں بھی ادا کرتے ہیں ،وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ٹیکسوں کے علاوہ بجلی کی پیداوار کمپنی کے واجبات میں کرایہ میٹر ساری زندگی کے لئے وصول کیا جاتا ہے جب کہ صارف گھر بناتے وقت میٹرکی قیمت ادا کر کے واپڈا سے میٹرخرید لیتا ہے پھر یہ نا جائز کرایہ صارف سے کیوں لیا جاتا ہے ، بجلی کی قیمت کے ساتھ کرایہ سروس بھی وصول کیا جاتاہے ، پھر بھاری بھر کم فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارج کیا جاتا ہے جب فیول پرائس ملک میں کم کی جاتی ہے تو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں وصول کی جانے والی اضافی رقم کس کھاتے میں جاتی ہے کسی کو علم نہیں ، پانچواں ایف سی سرچارج اور نمبر چھ سہہ ماہی ٹریفک ایڈجسٹمنٹ بھی بجلی بنانے والی کمپنی وصول کرتی ہے ۔
اب حکومت کی باری آتی ہے تو سب سے پہلے حکومت محصول بجلی کی مد میں چارج کرتی ہے دوسرے نمبر پر ٹیلی ویژن فیس چاہے مسجد ہو یا مدرسہ یا کوئی پی ٹی وی دیکھے یا نہ دیکھے یہ فیس ادا کرنا پڑتی ہے ، تیسرا جنرل سیلز ٹیکس جو کہ بجلی کے بل کا وزن بڑھانے میں خوب مددگار ہے ، چوتھا انکم ٹیکس بھی شامل کر دیا گیا ہے مالک مکان بے روزگار ہو، بوڑھا ضعیف ہو چکا ہو کمانے کے لائق نہ بھی ہو ، یا مر چکا ہو تو بھی یہ انکم ٹیکس واجب الادا ہو گا،پانچواں اور چھٹا فاضل ٹیکس اور مزید ٹیکس والا خانہ کب استعمال کیا جاتا ہے یہ صارفین کو علم نہیں ، ساتواں وہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو کہ بجلی بنانے والی کمپنی صارفین سے وصول کر لیتی ہے وہ ہے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر جنرل سیلز ٹیکس یہ انتہائی نا مناسب ٹیکس ہے جو کہ جنرل سیلز ٹیکس وصولی کے بعد فیول ایڈجسٹمنٹ پر لیا جا رہا ہے ۔
آٹھواںفیول پرائس ایڈ جسٹمنٹ پر فاضل ٹیکس اورنوواںفیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر مزید ٹیکس اور دسواں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر انکم ٹیکس کے یہ تین خانے حکومتی صوابدید پر استعمال کئے جاتے ہیں،گیارویں میں حکومت فیول پرائس اید جسٹمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی وصول کرتی ہے ، ،۔اس کے علاوہ موجودہ بل 73039.51 پر ٹوٹل فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 1230.48 روپے لگا کر ٹوٹل بل 74270 روپے مقررہ تاریخ تک اور غیر مناسب حد تک مقررہ تاریخ تک بل ادا نہ کرنے پر 5677 روپے ناجائزطور پر لینا انتہائی غیر مناسب ہے، جس سے بجلی کا بل 73039.51 روپے سے بڑھ کر صارف کو 79947 روپے ادا کرنا پڑتا ہے ، جب کہ بجلی کی کل قیمت 48801.27 روپے بنتی ہے یعنی صارفین نامناسب سر چارج اور ٹیکس کے زمرے میں اضافی فی یونٹ 18.196 روپے 1332 یونٹ استعمال کی صورت میں ادا کرتے ہیں ۔
بجلی کی قیمت تو کسی نہ کسی طرح صارفین برداشت کر رہے ہیں لیکن بل میں ٹیکسوں کی بھر مار بجلی کا حجم ایک عام صارف کے لئے قیامت ڈھانے کے لئے کافی ہے ، بجلی کاا ستعمال جتنا بڑھتا جاتا ہے فی یونٹ کی قیمت بھی بڑھا کر صارفیں کی مالی مشکلات میں اضافہ کرنا انتہائی ناجائز ہے ، حکومت کو فی یونٹ بجلی کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لئے مربوط لائحہ عمل ترتیب دینا ہو گا تاکہ بجلی کے بلوں میں صارفین کو ریلیف دیا جا سکے ۔ویسے بھی کم یا زیادہ یونٹ کے استعمال کی صورت میں بجلی کی قیمت پر اتنا بڑا تضاد نہیں ہونا چاہئے۔
بجلی کے مہنگا ہونے کی ایک بڑی وجہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں ( آئی پی پیز ) کو ڈالر میں ادائیگی عوام پر ظالمانہ فیصلہ ہے ،جس سے عالمی مارکیٹ میں کرنسی کے اتار چڑھائو کے فرق کی صورتحال کے پیشِ نظر صارفین ادا کرتے ہیں، بجلی کے مہنگا ہونے کی دوسری بڑی وجہ بجلی پیدا کئے بغیر اربوں روپے آئی پی پیز کو ادا کئے جاتے ہیں ، حکومت پاکستان اور انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز ) نجی بجلی گھروں کے درمیان جو معاہدہ ہے اس کے تحت ملک میں موجود بجلی گھر توانائی پیدا کریں یا نہ کریں ، حکومت پاکستان ان کو طے شدہ رقم ہر صورت میں ادا کرتی رہے گی ، بجلی گھر یہ رقم پاکستانی روپوں میں وصول کریں کے لیکن منافع امریکی ڈالروں میںوصول کریں گے جس کی قیمت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ جاتی ہے، حکومت پاکستان کیپیسٹی چارجز کی مد میں بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ کی استعداد کے مطابق بجلی خریدنے کی پابند ہے چاہے وہ پلانٹ انتی کیپیسٹی میں بجلی بنائے یا نہ بنائے ، لہذا اس ادائیگی میں تاخیر پر حکومت پاکستان لیکویڈیٹی چارجز بھی ادا کرنے کی پابند ہے اس کے ساتھ فیول کی مد میں ایڈوانس ادائیگی بھی کرنا ہو گی۔
حکومت بجلی کمپنیوں کو کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں سلانہ ایک ارب ڈالر ادا کرتی ہے ،کیپیسٹی چارجز میں وہ اضافی بجلی بھی ہے جو بجلی گھروں میں پیدا تو ہوتی ہے لیکن اسے استعمال نہیں کیا جاتا،البتہ اس کی ادائیگی لازمی ہے جسے کیپیسٹی پیمنٹ بھی کہا جاتا ہے ، اکٹوبر 2021 ء میں نیپرا نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ یہ سب پرانے اور ناکارہ پلانٹس، گردشی قرضوں کا پہاڑ ،ٹرانمیشن اور ڈسٹری بیوشن ( ترسیل اور تقسیم ) نظام کی خرابیاں ، نامناسب منصوبہ بندی ، بے انتظامی ،بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت کے اسباب میں شامل ہے ۔
پاکستان کا پہلا انڈر گرائونڈ کول گیس فیکیشن منصوبے کے سربراہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے مطابق اس منصوبے سے پیدا شدہ بجلی حکومت پاکستان کو صرف چھ روپے فی یونٹ مہیا کی جانی تھی جس روز ہم نے بجلی پیدا کی اسی روز حکومت نے فنڈ روک دیئے اور 500 ملازمیں کو نہ چاہتے ہوئے بھی نوکریوں سے فارغ کرنا پڑا ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بجلی مافیا بھی اس شعبہ میں موجود ہے ، حکومت کو مہنگی بجلی کے نامناسب بلوں پر توجہ دینے کے ساتھ غیر مناسب چارجز کو ختم کرنے کی طرف فوری قدم اٹھانا ہو ں گے ۔