تحریر : خالد غورغشتی
ہم اس قدر عقل کے اندھے ہیں کہ جس نے ہمیں جتنا لوٹا ہم اس کے اتنے ہی مدح سرا ہوگئے ۔ اس سلسلے میں روز مرہ کے کئی امور کی مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔
جیسا کہ گزشتہ دنوں مجھے ایک دوست کےلیے سمارٹ فون چاہیے تھا ، جس کی قیمت چھبیس ہزار تھی ۔ میں نے گاؤں کے ایک دُکان دار سے اُسے خرید کر دیا تو اُسے پسند نہ آیا اور کہنے لگا : ” یار اسے واپس کردو ” جیسے ہی اگلے گھنٹے میں اس موبائل والے کی دُکان میں داخل ہوا ، میرے ہاتھ میں موبائل دیکھتے ہی اس نے مُنہ بسورتے ہوئے کہا خیریت بھیا ! میں نے محترم یہ موبائل واپس کر دیں ۔ اس نے کہا اس کا ڈبہ تو نہیں کھولا ، میں نے کہا وہ تو کھولا ہے ۔ کہنے لگا اب یہ چودہ ہزار سے زیادہ کا نہیں بکے گا ۔ یہ سُنتے ہی میرے پاؤں تلے سے تو جیسے زمین ہی نکل گئی ۔ میں نے کہا آپ کا ذہنی توازن تو ٹھیک ہے جناب ! یہ پل میں تولہ سے ماشا کیسے ہوگیا ؟ اس نے کہا جناب لگتا ہے ؛ آپ مارکیٹنگ ریٹ سے واقف نہیں ۔ جب آپ موبائل کا ڈبہ کھول دیتے ہیں تو اس کی قیمت تیس سے چالیس فی صد خود بہ خود گر جاتی ہے ۔ میں نے کہا جناب یہ سامنے شیشے میں پڑا ہوا موبائل کتنے کا ہوگا ۔ کہنے لگا یہی کوئی باون ہزار کا میں نے کہا جناب یہ ڈبے سے نکلا ہوا سیٹ ہے ؛ مجھے تیس کا دے دیں ۔ کہنے لگا بھائی دماغ نہ کھائیے آپ جا سکتے ہیں ، ہم چودہ سے اوپر ایک روپیا نہیں دیں گے ۔ بعد میں دوست سے مشورہ کیا تو اس نے دیگر دُکان داروں کے پاس مجھے بھیجا ۔ جب میں نے دو تین جگہ معلوم کیا تو پتا چلا ، سب دکان داروں نے ایکا کیا ہوا ہے اور یہ چودہ سے اوپر نہیں بکے گا ۔ بالآخر میں نے دوست کے کہنے پر گاؤں کے ایک دُکان دار کو وہ موبائل تقریباً چودہ ہزار میں بیچ دیا ۔ بعد میں ایک اور دوست کو بھیجا اور معلوم کروایا کہ کتنے کا دے گا تو اسے بیس ہزار کا کہنے لگا ، ساتھ ہی یہ وصف بھی گنوائے کہ یہ بالکل نیا ہے ، پن پیک ہے ، صرف ڈبہ کھلا ہے، استعمال نہیں ہوا ہے ۔ وہ چپکے سے واپس آگیا، جب اگلے دن اس موبائل کا معلوم کرنے گیا تو اسے بتایا گیا وہ بیس ہزار کا بک گیا ۔ اس نے مجھے یہ ساری صورت حال بتائی تو میں ہکا بکا رہ گیا ۔ اس ظلم و زیادتی کو جو بھی نام دیں کم ہے ۔
گزشتہ دنوں ایک بھئی کو اسی طرح موبائل چاہیے تھا ، ہم مرکزی شہری کی دُکانوں میں گھومتے رہیے لیکن اس سیٹ کے ہر ایک کے پاس مختلف ریٹس تھے ۔ جب ہم تھک ہار گئے تو دوست نے کہا چلیں ٹھنڈا پانی پیتے ہیں پھر کامرہ کی طرف نکل جاتے ہیں ، میں نے کہا یار یہاں اپنا ایک دوست ہے وہاں پہلے چل کر معلوم کرتے ہیں کہ اس سیٹ کا مارکیٹ ریٹ کیا چل رہا ہے ۔ جب دوست کے پاس پہنچے تو اس نے کہا بھئی آپ لوگوں کی عقل کام کرتی ہے یہاں کئی دُکان دار اوریجنل سیٹ نہیں (کٹ) کاپیاں بیچتے ہیں ۔ اگر آپ کو چاہیے ہو تو مجھے بتائیے گا کمپنی سے کچھ دنوں تک یہ اوریجنل سیٹ منگوا کر دے دوں گا ۔
کچھ روز قبل ایک لڑکی کی ہمارے محلے میں شادی تھی ۔ اس کی والدہِ محترمہ مجھ پر اندھا دُھن اعتبار کرتی ہیں ۔ ایک دن اُس نے مجھے ساتھ لیا اور بازار سے ایک تولا سونے کی چیزیں بنوائیں ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چند ہی ہفتوں بعد اُس لڑکی کے گھریلو حالات تنگ ہوگئے اور اس کا شوہر بیمار پڑ گیا ۔ کہتے ہیں مصیبت جب گلے پڑے تو گھر کا بھی سودا کروا دیتی ہیں ۔ اس لیے ماں بیٹی نے مشورہ کر کے جب وہ سونا بیچنا چاہا تو مائی صاحبہ نے پھر مجھے ساتھ لے لیا ۔ ہم اس زرگر کے پاس پہنچے تو ایک تولا سونے کا ریٹ سامنے دیوار پر چسپاں دیکھ کر میری باچھیں کھل گئی ۔ میں نے کہا جناب یہ سونا جو آپ سے ماں جی نے بنوایا تھا واپس کرنا ہے ۔ اس نے کہا ڈیڑھ لاکھ تک ہوجائے گا ، میں نے کہا اس وقت ریٹ دو دس تھا اب دو چالیس کے قریب ہے تو آپ دو کا ہی لے لیں ؛ اتنا ظلم تو نہ کریں ۔ کہنے لگا پورے بازار میں گھوم لو ، ڈیڑھ سے اوپر کوئی ایک روپیا نہیں دے گا ۔ چناں چہ جب ہم نے دو چار دُکانوں کے پھیرے لگائے تو ڈیڑھ لاکھ میں ہی بیچنے پڑے ۔ ہم کب تک ان مافیاز سے گلی گلی میں لٹتے رہیں گے اور ان کے آگے بے بسی سے مرتے رہیں گے۔ ایسے ہی موقع کسی شاعر نے کیا فرمایا :
سُونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو جاگتے رہیو ؛ چوروں کی رکھوالی ہے
نہ جانے ان دکان داروں کے پاس کون سی جادو کی چھڑی ہے کہ جب خریدنے جاؤ ؛ تو اپنی چیزوں کو آسمان تک لگا دیتے ہیں اور جب بیچنے جاؤ تو پل بھر میں زمین سے بھی نیچے دام گرا دیتے ہیں ۔
آج مجھے کُھل کر کہنے دیجیے ؛ ہم تو ڈیکوریشن اور شیشے کی دُکان دیکھ کر لٹنے والے لوگ ہیں ، ہم تو رنگ برنگی لائٹوں کی روشنی میں دن کو لٹنے والے لوگ ہیں ۔ فینسی کپڑے کی دُکان میں جا کر دو ہزار کا سوٹ پانچ ہزار میں لینے والے لوگ ہیں ؛ جیولری، کاسمیٹکس ، شوز اور روزمرہ کی استعمال کی اشیا ہم کور دیکھ کر یا شیشے میں سجی دیکھ کر ، یا لائٹنگ کی چمک دیکھ کر دُوگنی قیمت پر خریدنے میں ذرا عار محسوس نہیں کرتے ۔
دراصل ہم اکثر اشیا کے نہیں ؛ سجاوٹ ، شاپر ، مارکے ، پیکنگ اور پلاسٹک کے پیسے دے رہے ہوتے ہیں ۔ لیز چپس کو ہی دیکھ لیجیے ؛ محض چند گرام اسی روپے میں ملتا ہے اگر ہمارے بھائی آئندہ سے ہمت کرکے اسی روپے کے کلو آلو خرید کر لائیں اور چپس بنا کر کھائیں تو سارے گھر والے خوب جی بھر کر کھا سکتے ہیں ۔ میں تو کہتا ہوں ہم جگہ جگہ پیکنگ اور مارکے کے پیسے دیتے ہیں ۔ ٹماٹر کیچپ کو ہی لے لیجیے ، کس قدر مہنگا ملتا ہے ۔ ان دنوں ٹماٹر سستا ہے ؛ اگر ہم ان کا جوس نکال کر یا ٹماٹر کیچپ بنا کر رکھیں تو کئی قسم کی بڑی بڑی فضول خرچیوں سے جان چھوٹ سکتی ہے ۔ الحمدللہ ہمارا ملک زرعی ہے اگر ہم زیادہ نہیں تو روزمرہ کی اشیا کی پیدوار میں اضافہ کریں تو کئی مسائل کی بیخ کنی ہوسکتی ہے ۔ دکان داروں اور تاجروں سے گزارش کی جاتی ہے وہ کاروبار کریں ، ظلم نہ کریں ۔ عوام آگے بھی مہنگائی کی چکی میں پِس چکی ہے ، اب مزید ان میں آپ کے ظلم و ستم اور زیادتی سہنے کی سکت نہیں رہی ہے۔