احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایا خان
نیا بجٹ گو پیش کیا جا چکا ہے مگر لاگو نئے مالی سال سے ہوگا۔ عام طور پر پاکستان میں نئے مالی سال سے قبل ہی وفاقی بجٹ کے بارے میں حکومتی دعوےٰ اور عوامی توقعات منظر عام پر آنا شروع ہو جاتیں ہیں ۔
جس میں ہمارے کئی طبقے خصوصی دلچسپی لیتے ہیں سواےُ ان غریبوں کے جو بجٹ کے اعداد وشمار سے نابلد ہوتے ہیں ۔اس نئے بجٹ کو غریب ،تنخواہ دار اور سفید پوش طبقے کے لیے خصوصی بجٹ قرار دیا جارہا ہے ۔
اس بجٹ کے ذریعےبے شمار معاشی چیلنجز کے باوجود غریب اور متوسط طبقے کے لیے بڑے اور خصوصی اقدامات کا دعویٰ بھی کیا جاچکا ہے ۔
وزیر اعظم اور وزاءاعلیٰ نے موجودہ وسائل کو برو کار لا کر عوامی ریلیف دینے کی ہدایت بھی کر دی ہے۔تنخواہوں اور پنشن میں اضافے اور پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کی پیشن گوئی کی جا چکی ہے ۔
زراعت کے شعبہ میں انقلابی اصلاحات کا اعلان کیا جا چکا ہے ان خوشخبریوں کے علاوہ بھی بہت سے اقدمات زیر غور ہیں جن کے ذریعے مہنگائی میں کمی اور عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے کے دعویٰ کئے جارہے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہو پاےُ گا ؟اور اگر کچھ ہوتا ہے تو وہ کیسے ہو پاےُ گا ؟ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی سننے میں آتا ہے کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے اور ملک معاشی اور اقتصادی طور پر نہایت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ہمارے ملک میں پیش کئے جانے والا ہر بجٹ ہمیشہ متنازعہ ہوتا ہے ۔
بجٹ پیش کرنے والے اسے عوام دوست اور اپوزیشن اسے عوام اور غریب دشمن بجٹ قرار دیتی ہے اور ہر موجودہ حکومت پچھلی قیادت کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے ۔
بجٹ سے قبل ہی ذخیرہ اندوز مافیا حرکت میں آجاتاہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ میں کس کس چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے
وہ تمام اشیاء ذخیرہ کر لی جاتی ہیں اور بجٹ سے پہلے ہی غریب کے لیے نایاب ہو جاتی ہیں اور بجٹ کا اعلان ہوتے ہی ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور یہ ناجائز منافع خور اپنے مقاصد پورے کر لیتے ہیں ۔
بجٹ کے بعد کچھ دن غریب اور متوسط طبقہ کی چیخ وپکار سنائی دیتی ہے ۔پھر وہ گرمی شوق کی آتش سے پگھل جاتے ہیں اور صبر کا دامن تھام کر آنے والے بجٹ سے امیدیں جوڑ لیتے ہیں ۔
ہمارے ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ جو معیشت اور اسکے قانون نہیں جانتا بجٹ کو مہنگائی ہی سے تعبیر کرتا ہے بجٹ کو مہنگائی کا دوسرا نام سمجھتا ہے۔ اسے یہ پتہ ہی نہیں کہ بجٹ کیا ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے ؟
بس یہ جانتا ہے قومی بجٹ سے پہلے ذخیرہ اندوزی اور بجٹ کے بعد مہنگائی ضرور ہوگی ۔لیکن اس سال بجٹ اور مہنگائی کا نام بدل کر شاید مشکل فیصلے رکھ دیا گیا ہے ؟
امسال کا بجٹ عجیب ہے حکومت آئی ایم ایف کو خوش کرنا چاہتی ہے تو عوام ناراض اور عوام کو خوش کرنا چاہے تو آئی ایم ایف ناراض ہوتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ یہ بجٹ عوام دوست ثابت ہو گا یا آئی ایم ایف دوست بجٹ ثابت ہوگا ۔ ۔ پیٹرول ،بجلی اور گیس کی مہنگائی بجٹ سے قبل ہی مشکل فیصلے کے نام پر بڑھ چکی ہے۔
جن کی قیمتیں پہلے ہی آسمان کو چھو رہی ہیں ۔عوام سوچتے ہیں کہ جب پورے سال قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں تو بجٹ کی کیا ضرورت ہے ؟
وہ اب ایک انجانے خوف میں مبتلا ہیں اور خود کو ایک ایسی اندھیری سرنگ میں داخل دیکھتے ہیں جس سے باہر نکلنے کا راستہ اور روشنی کا نشان دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے ۔
مہنگائی کے مقابلے میں تنخواہ اور پنشن میں اضافہ بھی آٹے میں نمک کی مثال ہی ہے ۔ٹیکس میں اضافہ تنخواہ کے اضافے کی مساوی نظر آتا ہے ۔
معیشت کے معاملات کا علم رکھنے والے اس سے زیادہ پریشان نظر آرہے ہیں کہ بجٹ خسارہ کیسے پورا ہوگا ؟
حکومت آمدنی اور اخرجات کی یہ وسیع خلیج کیسےپاٹ پاےُ گی ؟
عام طور پر معیشت کا شعور رکھنے والے لوگ بجٹ کا انتظار چند وجوہ سے کرتے ہیں کہ مہنگائی کتنی بڑھے گی ؟ٹیکس مزید کتنے اور کس پر لگیں گے ؟ تنخواہ میں کتنا اضافہ ہوگا ؟ کاروبار میں کچھ رعایت ملے گی یا نہیں ؟
غریب اور متوسط طبقے کو ریلیف کیسے ملے گا ؟کہیں یہ بجٹ ان کی تمام توقعات پر پانی تو نہ پھیر دے گا ؟
بجٹ بنانے والے شاید غربت اور سفید پوشی تلے دبے عوام کی اصل کیفیت سے واقف ہی نہیں ہیں ۔آج لوگوں کے گھر کا بجٹ براے نام آمدنی اور بے پناہ اخرجات ہی رہ گیا ہے ۔
لوگوں کو تو اب حکومت کی خسارہ کم کرنے کی خواہش اور دعوےُ بھی دیوانے کی بڑ لگتی ہے وہ اس وفاقی بجٹ کےنئے ٹیکسوں سے الگ پریشان ہیں جو ان کی مالی مشکلات میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔
عام آدمی کے لیے ضروری ہے کہ اسے اس بات کا ادراک ہو کہ بجٹ ہے کیا ؟
اور اسکی ضرورت کیوں پڑتی ہے ؟جی ہاں مختصر لفظوں میں سالانہ بجٹ وہ مالی منصوبہ بندی یا تخمینہ ہوتا ہے جسے حکومت اپنی مختلف مد میں آمدنی اور حکومتی اخرجات کے اعداد وشمار کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک سال کے لیے مرتب کرتی ہے ۔
گویا حکومتی وسائل اور عوامی ٹیکس سے حاصل شدہ رقم اور ملکی اخرجات کا ندازہ لگایا جاتا ہے اگر آمدنی اخرجات سے کم ہو تو کار مملکت چلانے کے لیے قرض لیا جاتا ہے یا پھر ائی ایم ایف جیسے اداروں سے معاہدے کا سہارا تلاش کیا جاتا ہے ۔
ہماری معیشت کے مطابق بجٹ تین طرح کے ہوتے ہیں جو متوازن بجٹ ۔جو خسارے کا بجٹ اور سرپلس بجٹ کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔متوازن بجٹ وہ ہوتا ہے جہاں ملکی آمدنی اور ملکی اخرجات برابر ہوں اور ملک چلانے کے لیے قرض نہ لینا پڑے ۔
خسارے کا بجٹ وہ ہوتا ہے جہاں ملکی آمدنی سے ملکی اخراجات زیادہ ہوں اور اخرجات پورے کرنے اور ملک چلانے کے لیے اندرونی و بیرونی قرض لیا جاے یا پھر ٹیکس کی شرح بڑھا کر محصولات میں اضافہ کیا جاے ۔
سرپلس یا مثالی بجٹ وہ ہوتا ہےجہاں آمدنی زیادہ اور اخرجات کم ہوں یہ نادر اور نایاب صورتحال خال خال دیکھنے کو ملتی ہے ۔
ہمارے ملک کا بجٹ عام طور پر خسارے کا بجٹ ہوتا ہے ۔اور خسارہ پورا کرنے کےلیے غریب اور متوسط طبقہ پر بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ عام لوگ اس کمر توڑ مہنگائی سے کیسے بچ پائیں گے ؟
یہ مہنگا ئی اب وہ چادر بن گئی ہے کہ اگر سر ڈھانپیں تو پیر ننگے ہوتے ہیں اور اگر پیر چھپائیں تو سر ننگا ہو جاتا ہے ! دوسری جانب حکومت کے لیے بھی ان بد ترین معاشی حالات کا یہ مشکل ترین بجٹ ہے
اور وہ ہر صورت عام آدمی کو ریلیف دینے کی جدوجہد کر رہی ہے ۔جبکہ ہمارے جیسے عام آدمی کے لیے اب سوال یہ ہے کہ اس بجٹ کے بعد مہنگائی کی اس لہر کے دور میں اپنا گھریلو بجٹ کیسے بنایا جاے ؟
جبکہ ہمارے پاس ایسی کوئی خوشخبری فی الحال نہیں کہ مہنگائی کم ہوسکے گی ؟ اور معاشرے کے ہر فرد کو کم ازکم آرام سے جینے کا حق مل سکے ۔
میری ماہرین معیشت اور دانشوروں سے اپیل ہے کہ مشورہ دیں کہ چالیس سے ساٹھ ہزار تک آمدنی والے اپنا گھریلو بجٹ کیسے بنائیں ؟جبکہ اب پینے کا پانی بھی مول سے ملتا ہے اور عوام کی پہنچ سے دور ہوتا چلا جارہا ہے ۔
گھر کا کرایہ ،بجلی اور گیس کا بل ،بچوں کی فیس ،اور بچوں کے دودھ کا بل ،کیسے ادا کیا جاےُ؟
ہم شوگر ،بلڈ پریشر ،دل کے امراض اور بےشمار بیماریوں کے مارے بوڑھےاور کمزور لوگ جان بچانے کی مہنگی ادویات کیسے لیں ؟
حکومت تو شاید اپنے بجٹ کا خسارہ اندرونی بیرونی قرضوں اور ٹیکس کے اہداف سے پورا کر لے گی مگر غریب اور سفید پوش کے گھریلو بجٹ کا خسارہ کیسے پورا ہوگا ؟
یہ سوال آج پوری قوم اور خصوصا” غریب اور سفید پوش متوسط طبقے کی پریشانی اور سوچ کا محور بنتا جا رہا ہے اور لوڈشیڈنگ،مہنگائی اور بے روزگاری سے ان کی رات کی نیندیں غائب ہیں
اس مرتبہ وہ وہ بڑی امید اور حسرت سے حکومت وقت اور اقتدار کے ایوانوں میں موجود اپنے ان نمائندوں اور ارباب اختیار کی جانب دیکھ رہی ہے ۔
جنہیں انہوں نے بڑی امید وں سے پنی خواہشات کی تکمیل کے لیے یہاں تک پہنچایا ہے اور جو ملکی ایوانوں میں ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے لیے کوشاں ہیں
جو انہیں خوشحالی اور غربت سے نجات دلانے کے سنہرے خواب دلا رہے ہیں۔
پہلے سے مہنگائی میں جکڑے غریب اور سفید پوش لوگوں کے پاس اب مزید شاید قربانی کے لیے کچھ نظر نہیں آتا اس مرتبہ اشرافیہ کو اپنےاخرجات کم کرکے عام آدمی کی مدد کو آنا پڑے گا
تاکہ اس نامکمل بجٹ کا بڑا خسارہ پورا کیا جا سکے اور مہنگائی میں کمی کے بارے میں حکومتی ریلیف کے دعوے ٰ بھی پورے ہو سکیں ۔
بہر حال بجٹ پر بحث جاری ہے دیکھنا یہ ہے کہ عوامی نمائندگی کرنے والے کیا کردار ادا کرتے ہیں؟