منشا قاضی
حسب منشا
ہم نے برگیڈیئر وحید الزماں طارق کی انکھ سے امریکہ دیکھا اور برگیڈیئر صاحب امریکہ میں انسان کی تلاش میں اپنی متجسس نگاہ سے دیکھتے رہے ڈھونڈتے رہے مولانا جلال الدین رومی کے ان اشعار سے اغاز کرتا ہوں
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر
کز دام دو ملولم و انسانم ارزوست
زیں ہمرہاں سست عناصر ولم گرفت
شیر خداو رستم دستانم ارزو است
گفتم کہ یافت می نشود جستہ. ایم ما
گفت انکہ یافت می نشود ارزو انم ارزو است
کیا دیکھتا ہوں کہ ایک اندھیری رات ہے اور ایک درویش سن رسیدہ ہاتھ میں مشعل لیے کوچہ و بازار کی خاک چھانتا پھرتا ہے جیسے اس کی نگاہ کسی گمشدہ کی تلاش میں ہو میں نے کہا حضرت سلامت کس چیز کی تلاش ہے فرمانے لگے ان درندوں اور چوپایوں کی بستی میں رہتے رہتے طبیعت عاجز اگئی ہے اب اس وسیع کائنات میں کسی انسان کی تلاش میں نکلا ہوں ایک ایسا نوجوان جس کی مردانگی اور شخصیت میری روح کو تسکین و بالیدگی عطا کر سکے میں نے کہا اپ کس دھوکے میں ہیں ؟ یہ تو عنقا کی تلاش ہے اس کے پیچھے اپنے اپ کو کیوں مشقت میں ڈالتے ہیں میں نے اس راہ میں در در کی خاک چھانی ہے دشت وصحرا ۔ ابادی و ویرانہ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں میرے قدم نہ پہنچے ہوں مگر اس کی حقیقت تو کیا پرچھائیں بھی نظر نہ ائیں درویش نے کہا مجھے تو اس شے کی تلاش جستجو زیادہ محبوب ہے جس کا وجود نادر اور جس کا حصول اسان نہ ہو ۔ برگیڈیئر وحید الزماں طارق کا سفر حوصلے کا سفر ہے ان کے نام کے ساتھ طارق لگتا ہے اس کی کشتیاں جلانا پڑتی ہیں اور طارق کا حوصلہ اپ کے ساتھ ہے اور حوصلے اگ کو گلزار بنا دیتے ہیں ۔
اکبر الہ ابادی نے کہا تھا کہ
آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی
ایمان بچ گیا بس اللہ نے خیر کی
آوارہ گرد کی ڈائری ابن انشاء کا سفرنامہ ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ صاحبو ! سفر کی برکتوں اور صعوبتوں کا کیا پوچھتے ہو بسا اوقات مسافر کو اپنے سوٹ کیس سے لے کر اپنے ناز تک خود اٹھانے پڑتے ہیں شجر ہائے سایہ دار سے الگ بچ کر چلنا پڑتا ہے جن میں طرح طرح کے مسافر نواز چھپے ہوتے ہیں مسافر کی گٹھری تاکنے والے اور متاع صبر و قرار لوٹنے والے نگری نگری کی اس آوارہ گردی میں مسافر پر کیا گزری اور مسافر کے ہاتھوں ان نگریوں اور نگری والوں پر پر کیا بیتی یہ کتاب اس کی داستان ہے شگفتہ شگفتہ خراماں خراماں چلتے ہو تو چین کو چلیے کے نقش قدم پر چلتے ہو تو امریکہ کو چلیے
مارک ٹوین نے اپنے ایک ناول کے دیباچے میں لکھا تھا اگر کوئی شخص اس کہانی میں مقصد تلاش کرتا ہوا پایا گیا تو اس پر مقدمہ چلایا جائے گا اگر کسی شخص نے اس کتاب سے سبق لینے کی کوشش کی تو اسے ملک بدر کر دیا جائے گا اور اگر کسی نے اس میں پلاٹ تلاش کرنے کی جرات کی تو اسے گولی مار دی جائے گی برگیڈیئر وحید الزمان طارق کا ابھی امریکہ کے حوالے سے کوئی سفرنامہ نہیں آیا ہے لیکن یہ سفر نامہ اگر ا گیا تو ان سب کا بھلا ہے برگیڈیر صاحب کا سفر نامہ کسی آوارہ گرد کی ڈائری نہیں ہوگی یہ ایک محقق ۔ مدبر ۔ مفکر اور فارسی زبان کے صاحب دیوان شاعر کا پوری دنیا کی قوموں کے لیے ایک پیغام ہوگا اور مقصد تلاش کرنے والوں کے لیے تحفہ ہوگا سبق لینے پر کی کوشش کرنے والوں کو ملک بدر نہیں کیا جائے گا اور پلاٹ تلاش کرنے والوں کو پوری سٹوری فراہم کی جائے گی کیونکہ پاکستان میں سعدی کی شیرینی اور حافظ کی رنگینی آج بھی ہمیں لطف تکلم سے آشنا کر سکتی ہے
کچھ لوگ اوارگی کے بطن سے مثبت سوچ اور بڑی شائستگی اور سلیقے اور قرینے سے سفری مناظر اپنی آنکھ کی ڈبیا میں محفوظ کر لیتے ہیں ۔ آپ نے دنیا کے کئی ممالک دیکھے ہوں گے اور ہر ملک کی اپنی ایک الگ پہچان ہے پیرس وہ شہر ہے جس پر رنگ و نور کی چادر پھیلتی چلی گئی ہمارا فرض منصبی کیا ہے ؟ اپنے ملک برطانیہ کو اتنا عظیم بنا دیں کہ ہر طرف ہیرو ہیرو نظر آئیں لائیڈ جارج کا یہ جملہ بڑا گرانمایہ اور اپنے وطن سے محبت کا ثبوت ہے شاہ جرمنی کہتا ہے کہ ہمیں آگے بڑھنے کے لیے دنیا کے رہنما بننے کے لیے جرمنی کو بیدار کرنا ہوگا آپ دیکھیں گے جرمنی سب سے آگے ہوگا نپولین کا قول بھی سن لیجئے کہ فرانس میں ہمیشہ بے شمار باصلاحیت انسان پیدا ہوتے آئے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم بہت اونچے کردار و عمل کی بلندیوں تک پہنچ سکے ہیں ملٹن کا خوبصورت قول وہ تو میں نے حرز جاں بنا لیا ہے مجھے بہت پیارا اور خوبصورت جملہ لگتا ہے اس نے ایتھنز کے بارے میں کہا تھا کہ ایتھنز یونان کی آنکھ کا تارا فنون کی ماں اور علم کا گہوارہ ہے چرچل اپنے ملک کے بارے میں کہتا ہے کہ ہمیں اپنے فرائض اتنی خوش سلیقگی کے ساتھ ادا کرنے چاہیے کہ اگر کسی ملک سے سلطنت برطانیہ کے پرچم کو اترے ہزار سال کا عرصہ بھی گزر چکا ہو تو وہاں کے لوگ پھر بھی یہی کہیں کہ وہ اچھا وقت تھا ایمرسن امریکہ کے بارے میں کہتا ہے کہ امریکہ ایک ایسا ملک ہے جو نوجوانوں کا ہے لندن ہر پرندے کا بسیرا ہے میکسیکو کتنا لاچار ہے جو خدا سے جتنا دور ہے امریکہ سے اتنا ہی قریب ہے ۔واہ کیا کہنے انگلینڈ ہو اور ماہ اپریل ہو یہ ایک جزیرہ ہے کہ نغمہ ہے ۔ہمارے ملک کے قومی ہیرو جو علم و فن کی دنیا کے رہبر ہیں اپنے پاکستان کے بارے میں وہ امریکہ میں حب الوطنی کے چلتے پھرتے سفیر کے طور پر پچھلے ایک ماہ کے دوران صرف اپنی ذات کے لیے نہیں ہمارے لیے بھی وہ بے شمار معلومات کا ذخیرہ لے کر آئے ہیں ہماری عظمتوں کی سرزمین پاکستان سے جب ان کے طیارے نے فضا میں اڑان بھری تو ان کی آنکھ کی ڈبیا نے اپنے اندر کئی مناظر قید کرنے شروع کر دیے رواداری اور برداشت کے کوہ گراں برگیڈیئر وحید الزماں کو اللہ تعالی نے طارق کا حوصلہ دیا ہے اور امریکہ میں آپ کا سامنا بے شمار نسلوں سے تھا کیونکہ ازرائیل زنگول کہتا ہے کہ امریکہ ایک بہت بڑی کٹھالی ہے جہاں یورپ کی تمام نسلیں پگل کر نئی شکل میں ڈھل جاتی ہیں ۔ وحید الزماں طارق ایک صاحب نظر انسان ہیں اور آپ کا سفر نامہ کسی آوارہ گرد کی ڈائری نہیں اور نہ ہی سفری معلومات ہے آپ نے پاکستان کے وقار اور ملت پاکستانیہ کے افتخار کو مزید افتخار بخشا ہے ۔آپ کی اردو انگریزی زبان میں گفتگو کی جستجو تو سب کو ہے مگر ان سب کو تعجب اس وقت ہوا جب اپ نے فارسی زبان میں پوری تقریب میں لیکچر فارسی میں دیا اور سعدی کی شیرینی اور حافظ کی رنگینی سے لطف اندوز کیا ۔ برگیڈیر ڈاکٹر وحید الزمان طارق ماہر اقبالیات اور اور رومی پر پوری معلومات اور دسترس رکھتے ھیں ۔ اپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ فارسی زبان کے شاعر ہیں اور آپ کی شاعری ہمالہ کی رفعتوں سے ہم کنار ہے ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں رواداری دیکھی ان کو برداشت کی قوت سے مالامال پایا اور وہ صبر اور شکر کے پیکر متحرک ہیں ۔ رواداری اور برداشت کے عقب میں سفر ہے سفر رواداری اور برداشت سکھاتا ہے ڈیکارٹ کہتا ہے کہ سیر و سیاحت کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے گزری صدیوں کے انسانوں سے بات چیت کر لی ۔ سفر کرنے سے انسان کو بہت سے تجربات حاصل ہوتے ہیں یورپ اور امریکہ کے لوگ سیر و سیاحت کو زندگی کا لازمی جزو تصور کرتے ہیں ۔ برگیڈیر ڈاکٹر وحید الزماں طارق کے مداحوں اور چاہنے والوں کی کثیر تعداد کا یہ اشتیاق بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی آنکھ سے امریکہ دیکھا اور ہمیں بھی انہوں نے امریکہ اپنی آنکھ سے دکھا دیا ہے اور یہ ضروری ہے کہ وہ امریکہ کے حوالے سے اپنا سفر نامہ جلد مکمل کریں ۔ پروفیسر عابدہ بتول ایک با اصول پروفیسر ہیں اور علم کے حصول کی دل دادا ہے وہ ڈاکٹر وحید الزماں طارق کے تمام لیکچرز سنتی ہیں ان کی بھی دلی خواہش ہے کہ امریکہ پر ڈاکٹر وحید الزماں طارق کا سفرنامہ منظر عام پر جلد آ جانا چاہیے ۔ یہ وہ سفرنامہ ہوگا جس میں آپ نے تنہا سفر نہیں کیا بلکہ اپنی شریک حیات کو ساتھ رکھا اور ان کی بھی رہنمائی مسیحائی سے کم نہ تھی اور ہمیں ڈاکٹر صاحب کی کامیابی کا راز بھی مل گیا کہ آپ کے عقب میں ایک سلیقہ شعار خاتون کا ہاتھ ہے ڈاکٹر صاحب بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ
میرا کمال میرا ہنر پوچھتے ہیں لوگ
ایک باکمال خاتون میری دسترس میں ہے
ڈاکٹر وحید الزماں طارق کی خطبات امریکہ بہت جلد منظر عام پر ا جائیں گے اور ہم ان سے استفادہ کریں گے ۔ راؤ محمد اسلم برگیڈیئر وحید الزماں طارق کہ خطبات دیوانہ وار سنتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ برگیڈیئر وحید ازماں طارق خوبصورت عادتوں کے ایک دلفریب انسان ہیں راؤ محمد اسلم کی بھی یہ دلی تمنا ہے کہ خطبات امریکہ جلد از جلد منظر عام پر ا جائیں ۔ خطبات بہاولپور کے بعد خطبات امریکہ حلق سے نکل کر خلق تک جائیں گے ۔
شاعر مشرق کے افکار و نظریات کا جس انداز میں یونیورسٹی آف واشنگٹن میں ڈاکٹر صاحب نے مکالمہ پیش کیا اپ نے ڈاکٹر علامہ اقبال کو خوبصورت انداز میں متعارف کروایا یونیورسٹی آف واشنگٹن ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ڈاکٹر وحید الزماں طارق کے چاہنے والوں نے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا ایشیائی زبانوں کے شعبے کے طلباء و طالبات نے فکر اقبال پر بحث اور مکالمے کے لئیے پروفیسر وحید الزماں طارق کو مدعو کیا گیا اور وہاں پہنچے تو جناب ڈاکٹر جمیل استاد اردو نے مہمان مقرر کا والہانہ استقبال کیا ایشیائی زبانوں کے شعبے میں اس نشست کا ایک انتظام اردو کے صاحب علم استاد جناب ڈاکٹر جمیل صاحب نے کیا تھا۔ ڈاکٹر جمیل صاحب کی جمیل فکر انسانی فکر کو اور جلا بخشتی ہے وہ امریکہ میں پاکستان کی وہ الوطنی کے چلتے پھرتے اشتہار ہیں حاضرین مسلسل تین گھنٹے تک وہاں کے طلباء اور طالبات کے ساتھ محو تکلم رہے اور مختلف فکری فنی اور شعری جہات پر اقبالیات کے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی اور طالبات نے علامہ اقبال کی بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کی بابت استفسار کیا سر عبدالقادر کی 1901 میں جاری کردہ مجلہ مخزن میں برطانوی اخلاقیاتی ادب کو بچوں میں متعارف کروانے کے لیے علامہ اقبال سے درخواست کی گئی آپ کی نظم
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
ایک طویل عرصے تک سکولوں کی اسمبلی میں ترنم سے پڑھی جاتی رہی اقبال پر رومی اور غالب کے اثرات کے ضمن میں بتایا گیا کہ یہ اثرات اس قدر گہرے تھے کہ اقبال اپنی وفات سے پہلے ایک دو ماہ ان دونوں شعراء کی ارواح سے محو گفتگو رہتے تھے رومی تو ان کے مرشد تھے ہی جن کی زیر قیادت آپ نے جاوید نامہ کا آسمانی سفر طے فرمایا غالب کی بابت آپ کا کہنا تھا کہ بیدل اور غالب کے کلام نے مغرب سے وطن لوٹنے کے بعد ان کا تعلق مشرقی اقدار سے قائم رکھا تھا اقبال نے بانگ درا میں اپنی نظم مرزا غالب میں اپنے ممدوح کو گوئٹے اور حافظ شیرازی کا ہمنوا قرار دیا اپنی فارسی شاعری کی کتاب جاوید نامہ میں غالب کی عظمت کا اعتراف کیا علامہ اقبال کے کلام کے ارتقا کےبارے میں سوالات کیے گئے مہمان مقرر ڈاکٹر وحید الزماں طارق نے بتایا کہ ایک شاعر اپنی زندگی کے تجربات سے اگے گزرتا ہے تو وہ ذاتی مشاہدات کی روشنی میں اپنے کلام میں پختگی پیدا کرنے کہ ساتھ ساتھ اس میں نئی جہتوں اور زاویوں کو متعارف کرواتا ہے اور اس کا کلام تبھی مقبولیت حاصل کرتا ہے جب وہ قومی مسائل کی بابت بات کرتا ہے اور اپنے فن کی خوبیوں کو اشکار کرتا چلا جاتا ہے ایک اقبال کی قومی شاعری اور ان کی برصغیر اور برصغیر سے باہر مقبولیت کی وجوہات اور پذیرائی پر بحث ہوئی اقبال کا پیغام آفاقی تھا اسی لیے اس کے بے شمار تراجم ہوئے اور فارسی کلام کو ایران افغانستان اور مشرق وسطی کے علاوہ برصغیر کے علم دو ملکوں میں برائے راست پڑھا گیا ان کی کیمبرج میں نکلسن اور اوربری کے قلم سے انگریزی میں تراجم ہوئے اور چھاپے گئے عربی میں عبدالوہاب العزام نے شعری ترجمے کیے اور پھر یہ سلسلہ رک نہیں پایا جو ان کے کلام و افکار کے طلب کی دلیل ہے ایک افغانی طالب علم عبد الوھاب واحدی نے اقبال کی افغانستان میں مقبولیت کے حوالے سے ان کے افغانستان کی قوم کو کیے گئے خطاب پیام مشرق کے انتساب اور اقبال کی فارسی شاعری پر سوالات کیے ایک طالبہ نے اقبال کے دو قومی نظریہ پر سوال کیا اور اسے اقبال کی اجتماعی فکر جس کا اظہار نیا شوالہ میں کیا گیا تھا اس سے متضاد قرار دیتے ہوئے اس کی وجہ دریافت کی پروفیسر وحید الزماں طارق نے اقبال کے کلام کے حوالے سے بین الاقوامی جہات پر کھل کر بات کی آپ نے دو قومی نظریہ کی وضاحت کی اور برصغیر کی معروضی صورتحال میں ایک قابل عمل حل قرار دیا اقبال نہ خانہ جنگی چاہتے تھے اور نہ قتل عام حالات تیزی سے بدل رہے تھے اور تقسیم ہند کے موقع پر جو کچھ مختلف اطراف سے تشدد اور لوٹ مار کی صورت میں ہوا وہ قابل افسوس تھا اور دو قومی نظریہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا ماحول انتہائی دوستانہ تھا اور ہر بات بے تکلف انداز میں زیر بحث آئی اپ نے اپنی کتب کا ایک سیٹ یونیورسٹی کو لائبریری کے طور پر تحفہ دیا لائبریری میں علامہ اقبال کے کلام اور افکار پر کتابوں کو دیکھ کر بے پناہ قلبی اور روحانی مسرت محسوس کرنے والے ڈاکٹر وحید الزماں طارق طلباء اور اساتذہ میں گھل مل گئے اور طلبہ اور اساتذہ کا شکریہ ادا کیا ڈاکٹر وحید الزماں طارق کے ہمراہ جناب خالد حفیظ تھے ان کی بیٹی بھی اسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے وہ بچی برگیڈئیر صاحب سے ملنے کے لیے آئی تھی ۔ ڈاکٹر وحید الزماں طارق نے مسجد عائشہ ایلکٹن ریاست میری لینڈ میں شام اقبال سے خطاب کیا اقبال اور جدید دنیا بیلے وو کالج اڈیٹوریم پیسیفک اسلامک کلچرل اینڈ کمیونٹی سروس کا تاریخی پروگرام تھا جو 11 مئی ریاست عاشگٹن دن میں ہوا ایرانی ثقافتی تنظیم کا جشن اقبال لائبریری بوتھل لائبریری ہال ریاست واشنگٹن میں پرشکوہ انداز میں ہوا ڈاکٹر ڈض وحید الزماں طارق نے خطاب کیا یونیورسٹی اف واشنگٹن سیاٹل میں بھی اپ نے خطاب کیا ڈاکٹر خالد کے ہاں پر شکوہ عیشائیہ میں شرکت کی واشنگٹن ریاست سپاٹل کے مضافات میں ڈاکٹر خالد کا اشیانہ دل کا کاشانہ محسوس ہوا وہاں پہنچ کر یوں محسوس ہوا کہ ہم اپنے گھر اگئے ہیں کیونکہ وہاں کا ماحول مضافاتی فضا میں خوبصورتی اور پاکیزگی کا حسین مظہر تھا ۔ڈاکٹر باسط افضل کا افضل کارنامہ یہ ہے کہ وہ بہت بڑے مہمان نواز ہیں انہوں نے 23 مئی کو اشاعیہ پر موضوع کیا اور ان کے ساتھ علمی فکری بات ہوتی رہی خاص طور پر وہ رومی اور اقبال کے حوالے سے بڑی گہری تحقیق رکھتے ہیں ۔ انوار شمسی کا وجود لارس ویلا نیو جرسی میں غنیمت ہے وہ اس گئے گزرے دور میں خوبصورت تبقتوں کی حسین و جمیل نشانی ہے اور عائشہیہ کیا تھا حقیقت یہ ہے شمسی توانائی سے لبریز ہمارے قلبوں اور روح کو تازہ کر گیا بزم سخن کہ وہ روح رواں ہیں انہوں نے اعزازات اور مجھے خطابات سے نوازا ۔
نہ اٹھا کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی اب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی
لیکن اقبال مایوس نہیں ہیں بلکہ اپنی کشت ویراں سے بہت ہی پر امید ہیں
نہیں ہے نا امید اقبال اپنے کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ھے ساقی
۔