ڈیرے دار
سہیل بشیر منج
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سال 2024-25 کا بجٹ پیش کرنے کی تیاری مکمل کر لی بدقسمتی سے وفاقی حکومت اس بار بھی کوئی ایسا بجٹ پیش کرنے میں ناکام رہی جس سے عام آدمی کو کوئی ریلف مل سکے
گزشتہ کئی دہائیوں سے کسی بھی حکومت نے اتنا سخت بجٹ پیش نہیں کیا ہوگا خدانخواستہ اگر یہ بجٹ من عن پاس ہو گیا تو پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پسی بے بس عوام کا مزید کچومر نکل جائے گا مہنگائی کا ایک ایسا طوفان کھڑا ہوگا کہ عوام تو مرے گی ہی لیکن حکومت کے خلاف نفرت اور شدت میں مزید اضافہ ہو جائے گا
ان تمام احباب سے سوال ہے جنہوں نے اس بجٹ کو تیار کیا ہے کہ اس میں عوام کہاں پر ہیں کیا آ پ نے یہ نہیں سوچا کہ یہ بجٹ پہلے سے قابل ترس کاروباری افراد کے لیے کیا مشکلات کھڑی کرے گا؟
اس بجٹ میں پراپرٹی ڈیلرز کی کمر میں ایسا چھرا کھوپا جا رہا ہے جس سے یہ کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہو جائے گا ریئل اسٹیٹ ایک ایسی انڈسٹری تھی جو ٹیکس میں ایک بڑا حصہ ڈالتی تھی
حکومت اس آمدنی سے ہاتھ دھو بیٹھے گی اور اگر ریئل اسٹیٹ کا کام ختم ہوتا ہے تو اس کے ساتھ منسلک تقریبا بیس کاروبار ختم ہو جائیں گے جن میں کنسٹرکشن، اینٹ، سیمنٹ، سریا، سرامک ٹائل،ماربل ، دروازے بنانے والے کارخانے، شیشہ ایلومینیم کے ساتھ بہت سے کارخانے بند ہو جائیں گے
یہ لوگ گین ٹیکس،اسٹام ٹیکس ،ود ہولڈنگ ٹیکس، ایڈوانس انکم ٹیکس اور اس کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے ٹیکس بھی ادا کرتے تھے جو ان پر واجب بھی نہیں تھے
حکومت صرف اس ایک سیکٹر سے اربوں روپے ٹیکس اکٹھا کرتی تھی جبکہ اس کے بدلے میں کسی ریل اسٹیٹ ایجنٹ کو کوئی سہولت میسر نہیں تھی
یقین کریں یہ جتنی ترقی بظاہر نظر آرہی ہے اس میں سب سے اہم کردار انہی ریل اسٹیٹ سے منسلک لوگوں کا ہے لیکن افسوس کہ اس بجٹ نے ریئل اسٹیٹ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا ہے
اس بجٹ نے کار امپورٹرز کی بھی چیخیں نکلوا دی ہیں کار امپورٹرز اور شوروم مالکان گزشتہ دو سالوں سے بہت برے حالات میں تھے لیکن بیچارے پتہ نہیں کس امید پر اتنے بڑے بڑے خرچے برداشت کیے جا رہے تھے شاید انہیں حکومت سے کوئی امید تھی کہ یہ گاڑیوں پر ٹیکس میں کمی لا کر اس دم توڑتی انڈسٹری کو سہارا دیں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا اگر کل یہ لوگ اپنے کروڑوں اربوں روپے لے کر کسی دوسرے ملک چلے جاتے ہیں تو پھر حکومت انہیں کسی طور بھی قصوروار نہیں کہہ سکتی کیونکہ وفاقی حکومت نے ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ چھوڑا ہی نہیں یقین کریں گاڑی پر جتنے ٹیکس پاکستانی عوام سے وصول کیے جا رہے ہیں شاید ساری دنیا میں کوئی ملک بھی ایسا نہ ہو
پاکستانی مارکیٹ میں سوزوکی آلٹو تیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے جبکہ یہی گاڑی ہمسایہ ملک میں تقریبا تین لاکھ میں مل جاتی ہے
اس کے علاوہ بجٹ میں مزید کاروبار برباد کرنے کی تیاری بھی مکمل کر لی گئی ہے جس میں سر فہرست موبائل انڈسٹری، شیشہ ایلومینیم، کاغذ، ٹیکسٹائل ،چمڑا ،ادویات پر نئے ٹیکس پڑھتے ہی یہ تمام کاروبار مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گے
کیا بجٹ تیار کرنے والے ماہرین نے یہ نہیں سوچا کہ جب یہ تمام کاروبار بند ہو جائیں گے تو پاکستانی عوام کیا کرے گی میرے خیال میں ہماری بد قسمت عوام کے نصیب میں ایسے حکمران ہیں ہی نہیں جو ان کے بہتر مستقبل کے بارے میں سوچیں
کیا اس بھاری بھرکم بجٹ میں کہیں بھی یہ ذکر آیا ہے کہ ہم رضاکارانہ طور پر ریاستی اخراجات میں ستر فیصد تک کمی لا رہے ہیں؟ کیا حکمرانوں نے کہا ہے کہ ریاست اس وقت مالی مشکلات میں ہے لہذا وزیراعظم ائندہ پانچ سال کے لیے اپنے پروٹوکول کی گاڑیوں میں پچانوے فیصد تک کمی لا رہے ہیں؟ کیا کسی نے ایسا کوئی اعلان سنا ہے کہ ملک جب تک معاشی طور پر مستحکم نہیں ہو جاتا ہم ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس اور بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کی مراعات میں اسی فیصد تک کمی لا رہے ہیں ؟کیا کسی نے سنا ہے کہ اس بجٹ میں ہم وزیروں، مشیروں ،گورنرز، وزرائے اعلی کی مراعات میں چھیانو ے فیصد کمی لا رہے ہیں ؟
یقینا کسی نے نہیں سنا ہوگا
جناب وزیراعظم برائے کرم اس بجٹ پر نظر ثانی فرمائیں کہیں آپ کا یہ فیصلہ بے روزگاری مہنگائی کے ساتھ ساتھ حکومت کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ نہ کر دے میرے حضور برائے کرم اس بجٹ میں تبدیلیاں لائیں نئے نئے ٹیکسز لگانے کی بجائے نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لائیں عوام کے ٹیکس سے جمع شدہ رقم سے قرض اتارنے کی بجائے ملک کی قومی آمدنی کے میں اضا فے نئے مواقع پیدا کریں خسارے میں جانے والے تمام اداروں کو فروخت کر دیں پینشن سسٹم ختم کر دیں صرف کنٹریکٹ جابز دیں سرکاری محکموں سے ریٹائر ہونے والے افسران کو دوبارہ سرکاری نوکری دینے پر پابندی عائد کر دیں
ٹیکسٹائل انڈسٹری تو مہنگی بجلی اور گیس کی وجہ سے پہلے ہی تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے جناب وزیراعظم ا گر آپ کے بجٹ ماہرین اتنے ہی ناکارہ ہیں تو برائے کرم بنگلہ دیشی وزیراعظم سے مدد مانگ لیں انہوں نے انتہائی غربت سے ترقی تک کا سفر بہت مختصر مدت میں طے کیا ہے آپ صرف ان سے ان مظالم کی معافی مانگ لیں جو
آپکی ریاست نے ان پر کیے تھے مجھے یقین ہے کہ وہ سب کچھ بھلا کر آپ کی مدد ضرور کریں گے لیکن اگر یہ بجٹ بغیر نظر ثانی کے پاس ہو جاتا ہے تو جہاں ریل اسٹیٹ ایجنٹ، ٹیکسٹائل، موٹر انڈسٹری ،کاغذ ،سیمنٹ اور بہت سے صنعت کار اپنے لیے کوئی متبادل کام تلاش کریں گے آپ بھی کر لیں کیونکہ اگر آپ غریب اور سفید پوش طبقے کے لیے کچھ نہیں کرتے تو پھر آپ کو بھی حکمران رہنے کا کوئی حق نہیں آپ بھی بغیر وقت ضائع کیے اپنے لیے کوئی متبادل کام تلاش کر لیں