چوہدری امجد علی جاوید
ممبر صوبائی اسمبلی
12/06/24
(حصہ دوم)
ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اس پر بہت سا کام ہو رہا ہے۔ وہاں مختلف ناموں سے پنچائت کا ادارہ احسن طریقے سے کام کر رہا ہے اور عوام الناّس ا س سے مستفیذ ہو رہے ہیں بلکہ اسے مزید آگے بڑھاتے ہوئے ہندوستان کے اندر ’’لوک عدالت‘‘ کے نام سے باقاعدہ کورٹس کام کر رہی ہیں جنہیں عوام کے اندر بہت پذیرائی حاصل ہے۔ پاکستان کے اندر بھی انصاف کی فراہمی کے کسی ایسے متبادل میکانزم کی اشد ضرورت ہے جو نہ صرف ہماری روایات اور ضروریات کے مطابق ہو بلکہ عصری تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو اور اسے تمام طبقوں کی طرف سے سندِ قبولیت بھی حاصل ہو۔ اگرچہ پاکستان کے اندر بھی اس کے حوالے سے مختلف قوانین اور اسکی پرویژن تو موجود ہے لیکن عدالتوں اور مختلف فورمز پر اس کا استعمال ہوتا ہوا نظر نہیں آتا اس کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔
۱۔ اس کا دائرہ کار محدود ہونا۔
۲ اس کا آپشنل ہونا
۳۔ مستقل قانون اور مخصوص فورم یا عدالت نہ ہونا۔
۴۔ اس میکانزم کے تحت کئے گئے فیصلوں کی قانونی حیثیت کا نہ ہونا۔
میاں محمد نواز شریف صاحب نے اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں ملک میں جلد مفت اور فوری انصاف کی فراہمی کا مژدہ سنا یا تھا اور اس پر قانون سازی کے لئے کام بھی شروع ہو چکا تھا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ضمن میں پہلے سے موجود ادارے اور قوانین کیوں مؤثر نہیں ہیں؟
کیا اس کی بنیادی خامیوں کا جائزہ لے لیا گیا ہے؟ کیا پھر سے وہی ایک مشقِ لاحاصل ہوگی، کمیٹیاں بنیں گی، طویل میٹنگیں ہوں گی؟ ٹی اے ڈی اے بنیں گے اور قانون کے مسودے ترتیب دئیے جائیں گے؟
ایسی مشق کے نتیجے میں ممکن ہے بل بھی تیار ہو جائے اور اسمبلی سے منظور بھی ہو جائے لیکن کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ پہلے سے موجود ناقابلِ عمل قوانین میں ایک اور قانون کا اضافہ ہو جائے اور اس بل کے نتائج بھی پہلے کی طرح ندارد۔ انصاف کی فراہمی کے لئے قانون سازی کے اس مجوزہ بل کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ مشاورت کا دائرہ وسیع کیا جائے
اس پر موجود ہونے والی تجاویز کا خیر مقدم کیا جائے اور انہیں مشتہر کیا جائے، یونیورسٹیوں، بار کونسلز اور سول سوسائٹی میں اس پر بحث کو عام کیا جائے اور تمام طبقات سے اس پر رائے حاصل کی جائے۔
اسمبلیوں کے اندر اس پر مباحثہ ہوتاکہ اس کے حق اور مخالفت میں دیے جانے والے دلائل قوم کے سامنے آ سکیں اور قوم آگاہ رہے کہ اس کی فلاح کے لئے حکومت کیا کرنا چاہتی ہے اور کون لوگ اور طبقات ہیں جو اس میں مزاہم ہو رہے ہیں۔ کسی معاشرے میں پیش آنے والے مسائل کو سمجھنے کے لئے اس معاشرے کی سیاسی تاریخ، سماجی، ثقافتی روایات اور پیداواری رشتوں کی جانکاری ضروری ہوتی ہے
پاکستان کا معاملہ دنیا کے دیگر معاشروں سے خاصی حد تک مختلف ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں جھگڑوں کے حل کا متبادل نظام (ADR)فریقین کی باہمی رضامندی سے عدالت کی بجائے مصالحت کے لئے موجود کسی دوسرے فورم سے رجوع کرنے پر بیس کرتا ہے اور پاکستان میں بھی انہیں ضوابط کے تحت قوانین اور ادارے موجود ہیں جو کہ راقم کی تحقیق اور دانست میں یہی امر ان قوانین اور اداروں کی ناکامی کا باعث ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وطنِ عزیز میں جھوٹے مقدمے، جھوٹے گواہ اور مقدے بازی میں طوالت پیدا کرنا ہمارے کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ اور اس کام کے لئے فریقین بھاری رقم خرچ کر کے اس کام کے ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جس میں پیسے والا اور طاقتور جیت جاتا ہے۔
ہار غریب اور کمزور کا مقدر بنتی ہے عدالتوں میں انصاف نہیں فیصلے ہوتے ہیں اس لئے ضروری ہوگا ہم قانونی موشگافیوں میں الجھے اور اکیڈمک ڈبیٹ میں پڑے بغیر اور دیگر ممالک کو فالو کرنے کی بجائے ملکی حالات، معاشرتی رویے، سماجی، ثقافتی روایات اور ضروریات کے مطابق پہلے سے موجود قوانین کے نقائص کو مدِنظر رکھتے ہوئے روائتی کی بجائے انقلابی سوچ اور فکر کے ساتھ ایسی قانون سازی کریں
کہ امیر غریب اور طاقتور کمزور کو دبا نہ سکے۔ عدالتوں سے فیصلوں کی بجائے لوگوں کو انصاف ملے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی منزلِ مراد حاصل نہ کر سکیں۔