رخسانہ رخشی
اس کی نفاست و شائستگی ، اس کا اعتماد ، منفرد حلیہ، جدید و ثقافتی رہن سہن، انوکھی سی پہچان، لباس میں بانکپن، گفتگو اور لہجے میں ٹھہراؤ، مزاج پُرعزم، عادت و اطوار میں ایک ادا مگر یہ شخص نہایت ذمہ دار اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے والا، طبیعت میں ایک تسلسل کہ عام عوام کی بہتری کا سوچنا ہے تو بس سوچنا ہے، علاقے کے لوگوں کا بہی خواہ ، ملک کیلئے مضبوط سوچ رکھنے والا کہ لگژری لائف چھوڑ کر عام لوگوں جیسی زندگی گزارنا۔ یہ کیسے انوکھی عادات و مزاج کے لوگ ہوتے ہیں جو ہر دم ہی اپنے ملک سے جڑا رہنا چاہتے ہیں، ایسے ہی لوگ اپنی مٹی سے مکالمہ کرتے ہیں کہ اس دھرتی کے لوگ کتنے دشوار اور کتنے ہموار راستوں پر چل رہے ہیں اور ان کی زندگی کی کھٹن راہوں کو آسان بنانا ہے۔ مگر ہمارے یہاں ایسے ملی سے جذبات رکھنے والوں کو انکی انفرادیت کی بنا پر جانے کیسے کیسے القاب سے نوازا جاتا ہے۔ نیک جذبات رکھنے والے بہی خواہوں کو ان کے لباس و فیشن کی وجہ سے عورت و مرد سے ہٹ کر جانا جاتا ہے۔ اس ملک کی قوم پر یا تو تعصب کی عینک چڑھی ہے یا پھر مسخرے مزاج اپنا رہے ہیں یہ لوگ!
وہ ایک شخص دلجمعی سے مسکرا کر روزانہ لوگوں کی فائلز پڑھتا ہے، ان کے کام کراتا ہے۔ دھوپ ہو یا بارش ذمہ داری سے نہیں بھاگتا۔ مگر پھر بھی اس کی شخصیت کو کھنگالا جاتا ہے، اس کے منفرد نام کی تختی پر گھنٹوں غور کیا جاتا ہے مگر وہ بھی تو انسان ہے دل میں خدمت خلق کا جذبہ رکھتا ہے کیوں اسے ٹٹولا جاتا ہے کہ اسے لگے کہ واقعی میں کون ہوں، اگر وہ سمندر میں موج کر لے تو بھی بعض لوگ اس کے تمسخرانہ میم بنا لیتے ہیں۔ تو کیا سمندر میں صرف ڈبکیاں لگائی جاتی ہیں ، اٹھکھلیاں کرنا منع ہے۔ یا جب کوئی سمندر میں کود جائے تبھی لوگوں کے دلوں میں ہمدردیاں جاگتی ہیں، اس ملک پاکستان میں جانے کتنے لوگ طاقت کے بل بوتے پر ابلیس بن بیٹھے ہیں تو واقعی ایسے میں کوئی حساس شخص کہاں جچے گا وہ ابلیس لوگ جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں انہیں پھول سے جذبات رکھنے والوں کی قدر کہاں،ان کے نامہ اعمال میں صرف عیاشیاں ہیں جبکہ حساس آدمی کی من موجی زندگی کے ساتھ جذبہ حب الوطنی اور قوم سے ہمدردی ہے یا پھر جذبہ ذمہ داری ہے۔
تاریکیوں میں ڈوبے ملک کو نئے سورج اور نئے دنوں کی ضرورت ہے ایسے میں اگر ایک ہنستا کھیلتا ذمہ دار شخص حازم بنگوار جیسا قوم کی خدمت کی کچھ بھی اور کتنی بھی ذمہ داری سنبھال لے تو کیا حرج ہے کیوں اسے منفرد اور انوکھا جانا جاتا ہے؟ ، ویسے وہ واقعی انوکھی شخصیت ہے کہ ایسے لوگ کم ہی دیکھے جا سکتے ہیں جو انوکھے بھی ہوں تو ذمہ دار اور لوگوں سے پیار بھی کرتے ہوں۔ آپ بتایئے کہ ایسی پیاری شخصیات آپ نے پاکستان میں کتنی دیکھی ہیں کہ جن سے کبھی کسی کو بہت کم شکایات ہوں، دو ہی قسم کے لوگ معاشرے میں عموماً پائے جاتے ہیں جیسے اچھے اور برے یا بہت برے یا پھربہت ہی اچھے تو حازم بہت ہی اچھے انسان ہیں، کون کہہ سکتا ہے کہ جس شخص نے یورپ و امریکہ میں تعلیم حاصل کی ہو اور وہاں کی روشنیاں دیکھی ہوں اور وہ وہاں کی زندگی سے متاثر نہ ہو اور وہاں کی روشنیاں اس کی آنکھیں چکا چوند نہ کریں۔ تو ایسا شخص کیسے پھر گرد آلود ماحول میں آکر دھول مٹی چاٹے گا، ایک سراسر بدعنوان اور راشی ملک میں آکر خود کو اس ملک کے عوام کیلئے مخلص بنائے گا، ان کا شہر گندگی سے پاک کرے گا، ان کے مسائل سن کر انہیں حل کرنے کی کوشش کرے گا۔معلوم نہیں ایسے شائستہ اور نفیس انسان کولوگ ان کے فیشن کے شوق کی وجہ سے تنقید کا نشانہ کیوں بناتے ہیں۔ پچھلے دنوں حازم بنگوار شدید تنقید کا شکار رہے وجہ ان کے انوکھے فیشن کے لباس کے پہناوے پر تھی۔ اس ضمن میں حازم بنگوار نے کہا کہ ’’بہت سے لوگ بھول جاتے ہیں کہ میں ایک انسان بھی ہوں ، دوسرے انسانوں کی طرح مجھے بھی اپنی ذاتی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کا حق ہے، اس بات کو بہت سے لوگ بھول جاتے ہیں کہ میں اپنی پُرتعیش زندگی چھوڑ کر عوام کی خدمت کیلئے افسر شاہی کا حصہ بنا، مگر مجھے اس کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے، مجھے ہر روز عام لباس پہننے پر تنقید ، ٹرولنگ اور نامناسب رویوں اور باتوں کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے جو ایک غیرمناسب رویہ ہے‘‘۔
ہمیں افسوس اس بات پر ہے کہ مختلف روپ میں بھیڑیئے عوام کا خون چوس کر دنداناتے پھرتے ہیں ان کی کوئی پکڑ نہیں ہوتی اور اگر ایک شوبز کی اور عوام کی خدمت کے جذبے سے بھرپور شخص ایوارڈ شو میں اپنی کسی منفرد پہچان اور اسٹائل کیساتھ شامل ہو تو دھرلیا جاتا ہے۔ اس ایوارڈ شو میں ہر کوئی اپنی انفرادی شخصیت کے ساتھ عیاں ہوا۔ پھر حازم جیسے اچھے انسان پر تنقید کیوں؟ کیا کوئی دانشوار ڈانس نہیں کر سکتا، کیا کوئی پُروقار شخصیت شوخ چنچل نہیں ہو سکتی، کیا کوئی شاعر شریر نہیں ہو سکتا، کیا کوئی وضع دار جگت بازی نہیں کر سکتا، ہر انسان اپنی شخصیت کے کئی پہلو رکھتا ہے۔ پھر یہ کونسی تہذیب کی کتاب ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے جی نہیں سکتا وہ صرف معاشرے سے ڈر کر تمیز و تہذیب اور پابند ہوکر زندگی گزارے۔ کسی بھی سنجیدہ شخصیت کو اپنی عام روٹین سے ہٹ کر بھی جینا چاہئے، تبدیلی بھی ضروری ہوتی ہے اور یہ تبدیلی اگرحازم جیسے شخص کے ذریعے آئے تو کوئی برائی نہیں ہے حازم بنگوار اس گھٹے ہوئے ماحول میں ایک خوشگوار اضافہ ہیں، ہمیں ایسے فرض شناس افراد کی قدر کرنا چاہئے۔