قربانی کے جانور اللہ کو ہماری شکایتیں کریں گے

تحریر۔۔۔ملک محمد سلمان۔۔۔۔۔۔۔لوگو(حاشیہ)


گرمی اتنی شدید ہے کہ باہر نکلتے وقت گاڑی میں بیٹھنے سے 2منٹ قبلAC آن کیا جاتا ہے تاکہ گاڑی بیٹھنے کے قابل ہو جائے۔باہر نکلا تو گلی میں شدید دھوپ اور گرمی میں قربانی کے بکرے اور گائے بندھی ہوئی نظر آئیں۔ غور سے دیکھا تو گرمی کی شدت سے بیچارے بکروں کی زبان حلق سے باہر آ رہی تھی۔
گاڑی روک کر پانی کی بوتل جو اپنے لیے رکھی تھی باہر بندھے بکرے کے برتن میں ڈال دی اس نے فور۱” سے پہلے ٹھنڈا پانی پیا اور مشکور نظروں سے آسمان کی طرف دیکھا جیسے اس وقتی ریلیف کیلئے اللہ کا شکر ادا کر رہا ہو۔پاس بیٹھے چوکیدار سے کہا کہ ان کے مالکان کو سمجھاؤ اتنی گرمی ہے گھر میں کسی پنکھے کے نیچے ٹھنڈی جگہ پر رکھیں۔اس نے بتایا کہ صاحب جی میری ڈیوٹی ان کا باہر خیال رکھنا ہے کہ کوئی چور ی نہ کر کے لے جائے، باقی ساری گلی والوں نے بکرے اور گائے اس لیے باہر باندھے ہوئے ہیں کہ ہر آتے جاتے کو دکھا سکیں کہ وہ قربانی کررہے ہیں۔
مجھے ہماری اجتماعی گھٹیا سوچ پر شدید دکھ ہوا کہ قربانی کا مقصد دکھاوا ہی رہ چکا ہے جبکہ قربانی فرض کرنے کا حقیقی سبق تو یہ تھا کہ آپ اپنی عزیز چیز اللہ کی راہ میں قربان کریں۔ جس بکرے کو ہم نے اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہے اس کو شدید دھوپ اور گرمی میں اذیت دیکر ہماری قربانیاں کیسے قبول ہوسکتی ہیں۔؟
خدارا نمود و نمائش میں پاگل ہوکر ان معصوم اور بے زبان جانوروں پر ظلم نہ کریں ورنہ اللہ کی قسم تمہاری قربانی قبول ہونا تو دور یہ جانور اللہ کے ہاں تمہاری شکایت کریں گے۔
اس اذیت کے بدلے تمہارا گریبان پکڑیں گے۔ بکرا منڈی کے انتظامی افسران سے بھی گزارش ہے جہاں اتنے اللے تللوں کے جعلی بل تیار کرتے ہیں وہیں ان بے زبان جانوروں کیلئے پنکھے،ائیر کولر اور سایہ فراہم کرکے دعائیں لیں۔ ہمیں خود سے ٹھیک کرنا ہوگا اگر آپ کا بکرا بھی باہر گلی میں بندھا ہے یا کہیں گرم جگہ تو اسی فوری سایہ دار جگہ اور ٹھنڈی ہوا فراہم کریں۔
ہمارے گھر میں عید سے چند دن پہلے بکرا آجاتا ہے اگر گرمی ہوتو مناست ٹھنڈی جگہ اور پنکھے کا انتظام کیا جاتا ہے جبکہ مجھے یاد ہے کہ جب سردیوں کی عید ہوتی تھی تو امی بکرے کو جرسیاں اور کمبل پہنا کر خیال رکھتی تھیں۔ بکرے کو چیف گیسٹ کا سٹیٹس دیا جا تھا،دالیں،پھل سبزیاں اور تازہ چارہ کھلایا جاتا تھا۔ امی نے سختی سے تلقین کرنی کہ یہ اللہ کا مہمان ہے اس کی خدمت کرو گے تو اللہ قربانی قبول کرے گا۔ہمارے گھر میں بولنے والا راء طوطا ہے جسے گرمیوں میں اے سی کمرے میں اور سردیوں میں ہیٹر والے کمرے میں شفٹ کردیا جاتا ہے۔گھر میں آنے والے ہر پھل پر پہلا حق طوے کا ہوتا ہے بلکہ ریگولر پھل لانے کی وجہ بھی طوطا ہے کیونکہ امی نے سخت آرڈر کررکھے ہوتے تھے کہ ”بے زبان دا خیال کریا کرو اللہ حساب لوے گا“۔ گھر کی چھت پر دو درجن سے زائد مٹی کے کونڈے ہیں جن میں باجرہ،گندم اور پانی رکھا جاتا ہے تاکہ پرندے کھاسکیں۔بچپن میں امی سے دو روٹیاں لیکر ایک خود کھانی اور ایک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے کووں اور چڑیوں کا کھلانا۔
لکھاری کا کام حکومت،افراد اور اداروں کی تعریف یا تنقید کرنا نہیں ہوتا۔ لکھاری کا اصل کام اگاہی دینا ہوتا ہے خاص طور پر ایسے موضوعات جن کا سب کو پتا ہوتا ہے لیکن خواہ مخواہ کی شرم اور ہچکچا ہٹ کا شکار ہو کر کوئی بھی اس پر بات نہیں کرتا۔
میرا خیال ہے کہ لکھاری کا اصل کام یہی ہے کہ معاشرتی برائیوں اور مسائل کا ذکر کیا جائے۔اس لیے میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ منافقانہ شرم و ہچکچاہٹ کی بجائے معاشرتی برائیوں کا تذکرہ کرتا رہوں۔
منافقت کا نقاب اوڑے افراد کو شائستگی اور بسا اوقات تھوڑے سخت الفاظ کے ساتھ بھی اس حقیقت سے آشکار کروایا جائے کہ منافقت اور 2 نمبری ایسے گھٹیا افعال ہیں جو چھپانے سے بھی نہیں چپ سکتا۔کیوں کہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ آپ اچھا بننے کی جتنی مرضی کوشش کر لیں آپ کی برائی کبھی نہ کبھی دنیا تک پہنچ جاتی ہے۔ آپ جتنی مرضی خاموشی سے نیکی اور اچھائی کا کام کریں۔ساری دنیا بھی آپ کی مخالفت میں آپکو برا بنا کر پیش کردے تب بھی اللہ کی غیبی مدد سے آپکے اندر کی اچھائی لوگوں کے دلوں میں آپ کیلئے احترام اور محبت پیدا کر دیتی ہے۔

Comments (0)
Add Comment