احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
کہتے ہیں کہ جو شخص اپنی ساری زندگی میں ایک بھی درخت یا پودا نہیں لگاتا
وہ اس زمین اور اپنے اجداد کا مقروض ہوتا ہے۔نئی نسل کو دینے کے لیے سب سے بہترین تحفہ درخت ہی ہوتا ہے ۔
مجھے شروع ہی سے انجیر کا پودا بے حد پسند ہے ۔اس سے میرا تعارف تب ہوا تھا
جب بچپن میں اس کے بڑے بڑے پتوں پر فروٹ چاٹ اور چنے چاول لیکر کھاتا تھا ۔
ایک تو اس کے بڑے بڑے سبز پتے اور دوسرے اس کا گہرا اور گھنا سایہ دونوں ہی متاثر کن ہوتے ہیں ۔
تاریخی اہمیت کے حامل اس چھوٹے سے قد کے درخت کے بارے میں کہتے سنا ہے کہ انجیر وہ پہلا پودا تھا
جسے انسان نے خود کاشت کیا ۔جب تک تن ڈھانپنے کو کپڑا دریافت نہ ہوا تھا۔
اس لیے لوگ اپنے جسم کیلے اور انجیر کے بڑے بڑے پتوں سے ڈھانپتے تھے اور اس کا پکا ہوا جامنی پھل
بھی شوق سے کھاتے تھے ۔شاید میری طرح اس کے پتوں کو بطور برتن بھی استعمال کرتے ہو ں گے ؟
پھر اس کا شاندار اور ذائقہ دار پھل تو انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں کو بھی اپنی جانب کھنچ لیتا ہے ۔
ہماری مقدس کتاب میں اللہ تعالیٰ نے زیتوں کے ساتھ انجیر کی بھی قسم اٹھائی ہے ۔
جس سے اس درخت کی اہمیت اور بھی مقدس ہو جاتی ہے ۔میری ہمیشہ خواہش رہی کہ
اپنا گھر ہوگا تو اپنے اجداد کا قرض اتارنے کے لیے چند درختوں کے ساتھ ایک درخت انجیر کا بھی ضرور لگاوں گا ۔
پھر جب اللہ نے اپنا گھر عطا فرمایا تو سب سے پہلے گھر کے سامنے انجیر کا پودا لگایا ۔
جو وقت کے ساتھ ساتھ اب پورا درخت بن چکا ہے ۔یہ درخت مجھے اپنے ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے نظر آتا رہتا ہے ۔
جہاں بیٹھ کر میں روز صبح اپنی روزمرہ کی ادنیٰ سی بہت ہی مختصر عبادت کے بعد اپنا
روزآنہ کا اردو کالم بھی لکھتا ہوں اور اس درخت پر موجود کوئل کی سریلی آواز تہجد اور
فجر کی نماز کے بعد آنا شروع ہو جاتی ہے۔
جو اپنے رب کی تسبیح اور ثنا خوانی سورج کے ابھرنے تک جاری رہتی ہے ۔
اباجی کہتے تھے کہ قران گریم اور رب کی تسبیح او ثنا خوانی پڑھنے سے بھی زیادہ سننے کا ثواب ہوتا ہے
چاہے وہ کسی بھی انسان یا کسی پرندے کی زبان سے ہی کیوں نہ ہو ۔
بہار کی سرسبز دلکشی بکھیرنے کے بعد پت جھڑ ،خزاں اور سردی کی ابتدا ء میں یہ خوبصورت درخت رفتہ رفتہ اپنے پتوں کو گرانے لگتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ پورے درخت کی سوکھی ٹہنیاں ہی سلامت رہ جاتی ہیں ۔
تمام پتے سوکھ کر سبز سے زرد ،سرخ اور پھر پیلے ہوکر ٹوٹنے لگتے ہیں اور اس وقت تک گرتے رہتے ہیں
جب تک کہ یہ درخت ٹنڈ منڈ نہیں ہو جاتا ۔
گو خزاں میں اپنے پتوں کی جدائی کی اذیت کو ہر شجر بھی محسوس کرتا ہے مگر کچھ کر نہیں سکتا ۔
اسےہمیشہ اپنی بےبسی اور لاچاری کا احسا س رہتا ہے ۔
میں سردی میں اپنے ڈرائنگ روم کے شیشوں سے اکیلا بیٹھا ان پتوں کو سوکھتا اور گرتا دیکھتا رہتا تھا ۔
ہر روزاسے اپنے سامنے دیکھ کر احسا س ہوتا کہ ابھی میں تنہا نہیں ہوں ؟
یوں ہماری یہ دوستی بڑھتی چلی گئی ۔پچھلی مرتبہ جب ہر روز اس کے پتے گرتے جارہے تھے
اور آخری چند پتے ہی باقی رہ گئے تھے ۔جو خزاں کی سرد ہواوں سے مسلسل برسر پیکار تھے۔
ایک صبح دیکھا کہ صرف ایک ہی پتہ درخت پر باقی رہ گیا تھا ۔ جو پت جھڑ کی تیز ہواوں کا سامنا کر رہا تھا ۔
سنا ہے کہ بعض درختوں کے پتے انسانوں کی طرح اپنی ضد پر اڑ جاتے ہیں ۔
جدائی اور موت کو آسانی سے قبول نہیں کرنے پر تیار نہیں ہوتے ۔
اپنی زندگی کے آخری لمحےتک موجود رہنے کی خواہش اور درخت سے جدائی کا خوف ہی
شاید اس آخری پتے کو تند ہواوں سے لڑنے پر مجبور کر رہا تھا ۔
یا پھراسے اپنے درخت سے وفاداری نبھانے کا تقاضا بھی اسےایسا کرنے پر مجبور کر رہا تھا ؟
بزرگ کہتے ہیں کہ زندگی کے بہت سے حادثے اس لیے بھی ضروری ہوتے ہیں کہ اگر جدائی کا غم
اور بچھڑنے کا دکھ نہ ملیں تو آنے والی خوشیوں کی اہمیت اور قدر کھو جاتی ہے ۔
ایک جانب تو انسان کے جینے کی خواہش کی طرح اس آخری پتے کی درخت سے جڑے رہنے کی خواہش اسے گرنے نہیں دے رہی تھی تو دوسری جانب کہیں دور نئی کونپلیں جنم لینے کے لیے بے چین اس کی جلد رخصتی اور
ماضی کا حصہ بننے کی منتظر تھیں ۔
جن کےلیے ضعیف اور کمزور پتوں کی موت اور اختتام ہی نئی بہار کی نوید ہوتی ہے ۔
پھر شاید اس آخری پتے کو احساس ہوا کہ اس کا وجود اب دوسروں کے لیے فائدہ مند نہیں رہا
بلکہ وہ تو اب درخت کی ٹنڈ منڈ شاخ پر بوجھ بن چکا ہے ۔
فضول چیزوں کو بھلا کب کون اور کہاں تک برداشت کرتا ہے؟
شاخ کی بے اعتنائی اور سرد جھونکوں کی دشمنی کی باعث یہ مرجھا یا ،سکڑا ہوا ،
خشک اور زدد پتہ آخر کب تک زندگی کی یہ آخری جنگ لڑتا ؟ بالا ا ٓ خر اپنے اختتام کو پہنچا
اور ایک رات تیز سرد ہوا کے جھونکے
کے ہاتھوں شکست کھاکر اس نے بھی اپنی ہار مان لی اور اپنا آخری رشتہ بھی اس شاخ سے توڑ لیا ۔
وہ بڑی بےبسی سے زمین پر گرا تو اسے زمین نے بھی نے کچھ سہارا نہ دیا ۔
بھلا سوکھے پتوں اور بےکس لوگوں کو کون سہارا دیتا ہے ؟ بڑی دور تک ہوا کے دوش پر اڑتا
ناجانے کہاں سے کہاں جا پہنچا ۔
مقدر کے یہ دھکے اس کی فنا کا آخری سفر ٹھہرے ٔ۔حسب معمول صبح کھڑکی سے دیکھا تو
اسے شاخ پر نہ پاکر دل بہت اداس ہوگیا ۔اسکی یہ شکست مجھ پر بہت گرا ں گزری
مجھے اس کے ٹوٹنے سے زیادہ اس کے ہارنے کا دکھ تھا ۔
کیونکہ وہ میرا دوست تھا ہماری دوستی میں ایک چیز مشترک تھی وہ خزاں کا ااور میں بڑھاپے کا شکار تھے ۔
کہتے ہیں کہ خزاں بڑھاپے کا دوسرا نام ہوتا ہے ۔میں اس لیے پریشان نہیں تھا کہ وہ
شاخ سے ٹوٹ کر گر چکا تھا۔ بلکہ اس لیے کہ میں اب زندگی کے مقابلے میں تنہا رہ گیا تھا ۔
اس نے تو اپنی خزاں گزار لی تھی مجھے ابھی بڑھاپا گزارنا تھا ۔وہ خزاں کی اذیت برداشت کر چکا تھا
مجھے بڑھاپے کی مشکلات ابھی برداشت کرنی تھیں ۔ہاں وہ دنیا کو یہ تاریخی سبق ضرور دے گیا تھا
کہ جب کوئی چیز فائدہ مند نہیں رہتی تو وہ بوجھ بن جاتی ہے اسے زندہ رہنے کا حق بھی نہیں ہوتا ۔
اس لیے جب تک موجود رہو دوسروں کے لیے کارآمد رہو تاکہ تمہارے پاس جینے اور زندہ رہنے کا
کوئی جواز تو موجود رہے ۔دوسرے دن خزاں اور سردی کے باوجود فجر کے وقت کوئل کی آواز نے مجھے چونکا دیا
میں حیران تھا اس خزاں کے موسم میں یہ آواز کہاں ؟
ایک جانب اس کی آواز اللہ کی حمد وثنا کے ساتھ ساتھ آنے والی بہار نو کا پیغام دے رہی تھی
تو دوسری جانب اس کی آواز کا سوز سوکھے پتوں سے جدائی کا نوحہ بھی سنا رہا تھا ۔
اس کی آواز میں میرے لیے روانگی اور بچھڑنے کے لیے ریلوے کے پرانے اسٹیم انجن کی سیٹی جیسا درد
اور سحر موجود تھا ۔
میں سوچ رہا تھا کہ دنیا کے اس انجیر کے درخت پر شاید میں بھی ایک ایسا آخری پتہ ہی ہوں
جو بچھڑنے کے خوف سے اپنی بقا کے لیے سرد جھونکوں اور پت جھڑ کی تندوتیز ہواوں سے الجھ رہا ہوں ۔
میں بھی اس آخری پتے کی طرح جینے کی اپنی فطری ہوس اور حسرت پوری کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا ہوں ۔
شاید آخری حد تک موجود رہنے کی خواہش انسان کا بنیادی حق بھی تو ضرور ہوتا ہے ؟
لیکن خزاں اور بڑھاپے سے بچنا بھی تو مشکل اور ناممکن ہوتا ہے ؟
مشہور بزرگ شاعرصوفی بیاض سونی پتی مرحوم نے زندگی کی بے ثباتی اور انسانی مجبوری کے بارے
میں ٹھیک ہی کہا تھا ۔
ہر چیز پہ قادر وہی معبود خدا ہے
انسان تو مجبور ہے راضی با رضا ہے
کب جانیے کب اس کو بجھا دے کوئی جھونکا
یہ زیست لرزتا ہوا مٹی کا دیا ہے