گزشتہ سے پیوستہ کالم میں غربت بڑھنے پر پاکستان کے اخلاقی دیوالیہ پن کی بات ہوئی تھی
معاشرے کے زوال پر دل کی حالت اپنے قارئین سے شیئر کر چکا ہوں
یہ حقیقت ہے کہ ملک میں پھیلتی انارکی کا سبب مہنگائی، غربت اور بھوک کا عفریت ہے ۔
دہشتگردی اور بےروزگاری کے عذاب بھی معاشرتی اقدار کو نگل رہے ہیں۔محبت ،انس ،خلوص ،رواداری اور برداشت جیسے جذبے ناپید ہوگئے ہیں ،اعلی’ اخلاق سے عاری ہوکر لوگ انسانیت سے دور ہو جاتے ہیں۔
ان حالات میں پھر دوسروں کے احترام کی کوئی صورت نہیں نکلتی یہیں سے معاشرتی تباہیوں کا سلسلہ زور پکڑنے لگتا ہے
افرا تفری اور نفسانفسی میں اجتماعی ترقی کا تصور ہی ممکن نہیں ۔
پاکستان کے تبدیل شدہ حالات کی یہ منظر نگاری کسی سے سن کر رقم نہیں کررہا ہوں
بلکہ یہ سب میرے اپنے مشاہدات ہیں ۔
بنظر غائر برسوں سے پاکستانی معاشرے کی اچھائیوں کو برائیوں میں بدلتے دیکھ کر تلملا رہا ہوں ۔
ان تمام خرابیوں میں سے بدترین خرابی نئی نسل کے ذہنوں کو گمراہ کن پروپگنڈے سے زہر آلود کرکے
آنے والی روشنی کو بھی اندھیروں میں تبدیل کرنے کا اہتمام کرنا ہے ،بقول شاعر
یوں اہتمام رد سحر کردیا گیا
پھر روشنی کوشہربدرکردیا گیا
معاشرتی برائیوں کے وقوع پذیر ہونے میں ہم سب ذمے دار ہیں ،کوئی بھی اس اجتماعی نقصان پر خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا ،
قوم افراد سے بنتی ہے اور افراد ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں ،معاشرے کا کوئی کردار بھی ہوا میں معلق نہیں رہ سکتا ۔رابطوں کے اس جہان میں ہر فرد دوسرے کی ضرورت بن کرتیز رفتار ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔کیونکہ ایک ایک فرد ملک کی تعمیر وترقی میں اپنے حصے کے کردار نبھانے کا ذمے دار ہے ۔
اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرنے والے اب نظر نہیں آتے ۔
محلے کے نوجوانوں کو اپنے بیٹے سمجھ کر اخلاق کا درس دینے والے بزرگ کہاں گئے ؟
.نسلیں سنوارنے کا جذبہ ہی ناپید ہوگیا ہے باقی چیزوں کا کیا کرنا !. یہی معاشرے کا حقیقی حسن ہوا کرتا تھا۔
مجھے یہ سنہری دور اس لئے یاد ہے کہ ہمارے دور میں سبھی احباب انہی اقدار پر عمل پیرا تھے۔
پھر ہم نے اپنے ہی اصولوں اور اقدار کا خود ہی جنازہ نکال دیا ۔ہمسائیگی کے ضابطے فراموش کرکے
ہم لاتعلقی کی سرد مہری اوڑھ کر سوگئے، ایک دوسرے کی خبر گیری کا رواج ہی دم توڑ گیا ۔
ہم نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے الٹا معاشرے کو کوسنا شروع کردیا
اور یہاں سے ہی اصل خرابی کا سفر ہمیں تباہی کے دہانے پر لے آیا ۔ہم نے اپنی غلطی دوسرے پر ڈالنے کی
روایت کو آگے بڑھانے کا تسلسل برقرار رکھا جس پر پورا معاشرہ ہی گراوٹ کا شکار ہوتا چلا-
یہی خرابی اب ہماری سیاست کا طرہء امتیاز بن گئی ہے۔سیاستدانوں کی طرف سے ہر خرابی پر
ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرانے کے عمل نے ملک کی ساکھ کو تباہ کرکے رکھ دیا ۔
ضد اور ہٹ دھرمی کے اصول اپنانے والے سیاسی رہنمائوں نے قوم کو مایوسیوں کی دلدل میں پھینک دیا ۔
ملک کے مالیاتی حالات کو بگاڑنے میں “جھوٹ کی سیاست “نے اہم کردار نبھایا ہے ۔
دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں وسائل کی کمی نہ تھی مگر “مالیاتی بدانتظامی”نے کئی بحرانوں کو جنم دیا۔
اشرافیہ نے اپنے فائدے کی خاطر ملکی وسائل پر قبضہ کرلیا ۔۔اقتدار پرستوں نے ملکر عوام کو مشکلات
کے بھنور میں پھنسا دیا ہے،ملک میں پھیلنے والی اخلاقی برائیوں نے پورے معاشرے کی چولیں ہلاکر رکھ دی ہیں ۔
اسی خرابی سے غیر یقینی اور سیاسی و معاشی عدم استحکام کے سلسلے طول پکڑتے چلے گئے۔
پاکستان کے مالیاتی بحران اب ٹلنے کا نام نہیں لے رہے ۔ ملکی حالات کو اس نہج پر لانے کے ہم سب خود ذمے دار ہیں
لیکن اس پر دوسروں کو موردالزام ٹھہرانے سے باز نہیں آتے ۔ہمیں اپنی بربادی پر پیشمانی تک نہیں ۔
بے حس لوگوں کا یہ المیہ ہے کہ ماضی کی حماقتوں اور کوتاہیوں کو یاد کرکے کبھی ان سے سبق نہیں سیکھا ،
پھر مستقبل میں ان سے کسی طرح کی اچھائی سرزد ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
ہم نے کبھی اپنی بربادی کا سبب تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔عہد ساز شاعر جون ایلیا نے بھی یہی بات کچھ اپنے انداز میں بیان کی ہے کہ
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں ۔