دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے نوٹیفکیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں کوئی نشست نہیں جیتی تھی، الیکشن کمیشن کے احکامات میں کوئی منطق نہیں لگتی، الیکشن کمیشن ایک جانب کہتا ہے سنی اتحاد کونسل الیکشن نہیں لڑی، ساتھ ہی پارلیمانی جماعت بھی مان رہا ہے، اگر پارلیمانی جماعت قرار دینے کے پیچھے تحریک انصاف کی شمولیت ہے تو پہلے ہو چکی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا اگر سنی اتحاد کونسل سے غلطی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن تصحیح کر سکتا تھا جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اگر ایسا ہو جائے تو نشستیں تحریک انصاف کو ملیں گی، سنی اتحاد کونسل کو نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا عوام کو کبھی بھی انتخابی عمل سے الگ نہیں کیا جا سکتا جبکہ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا عوام نے کسی آزاد کو نہیں بلکہ سیاسی جماعت کے نامزد افراد کو ووٹ دیے تھے۔
ججز کے سوالات پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل درخواست گزار فیصل صدیقی کو جواب دینے سے روک دیا۔
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منیب اختر کے درمیان جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں، ہم اپنا فیصلہ کر لیں گے، میں ایک بار ایک عدالت پیش ہوا تو کہا تھا آپ اگر فیصلہ کر چکے ہیں تو میں اپنا کیس ختم کرتا ہوں، آپ اپنے دلائل نہیں دیں گے تو مجھے کیا سمجھ آئے گی کہ آپ کی جانب سے کیا لکھنا ہے، میرا خیال ہے فیصل صدیقی صاحب ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا یہ غیر ذمہ دارانہ بیان ہے، فل کورٹ میں ہر جج کو سوال پوچھنے کا حق ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا فیصل صاحب آگے بڑھیں میں نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کی تھی، جسٹس منیب اختر بولے اس قسم کا غیر ذمہ دارانہ بیان تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
کیس کا پسِ منظر
6 مئی کو گزشتہ سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کے کوٹے کی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔
3 رکنی بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کی معطلی صرف اضافی نشستوں کی حدتک قرار دی تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیج دیا تھا۔
سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔