تحریر: عبدالباسط علوی
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عمومی طور پر ہمارے ہاں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ تمام تر ذمہ داریاں ریاست کی ہوتی ہیں جبکہ لوگ ہر قسم کی ذمّہ داریوں سے آذاد ہوتے ہیں۔ تاہم کسی بھی معاشرے میں ریاست اور اس کی عوام کے درمیان مشترکہ ذمہ داریوں کا ایک نازک توازن موجود ہے۔ یہ توازن ایک فعال اور ہم آہنگ کمیونٹی کی بنیاد ہے۔ ان ذمہ داریوں کو پہچاننا اور ان کو پورا کرنا قوم کی مجموعی بھلائی اور ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔
آزاد کشمیر کے تناظر میں یہ انتہائی خوش آئیند امر ہے کہ پاکستان، پاکستانی فوج اور ریاست آزاد جموں و کشمیر اپنی اپنی ذمہ داریاں مؤثر طریقے سے نبھا رہے ہیں اور ریاست کے کام کاج میں جسمانی اور مالی طور پر حصہ ڈال رہے ہیں۔ آزاد کشمیر پاکستان اور اس کے شمالی علاقوں کے درمیان پائیدار اتحاد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستانی حکومت آزاد کشمیر کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ کرتی ہے اس سے ایک مضبوط اتحاد اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مخلصانہ عزم ظاہر ہوتا ہے۔ 1947 میں اپنی آزادی کے بعد سے آذاد کشمیر نے پاکستان کے ساتھ ایک منفرد رشتہ برقرار رکھا ہے جو کہ محض انتظامی تقسیم سے بالاتر ہے۔ پاکستانی حکومت نے مسلسل مختلف ذرائع سے آزاد کشمیر کی ترقی کے لیے اپنی لگن کا مظاہرہ کیا ہے اور ریاست کو مالی امداد، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور سیاسی نمائندگی میں بھرپور معاونت فراہم کی ہے۔ معاشی طور پر پاکستان آزاد کشمیر کے بنیادی ڈھانچے، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور سماجی بہبود کے اقدامات کو بڑھانے کے لیے خاطر خواہ مدد فراہم کرتا ہے، اس طرح زندگی کا معیار بلند ہوتا ہے اور ریاست کی عوام کو ضروری خدمات کی فراہمی ہوتی ہے۔ پاک فوج، جو قومی سلامتی کو یقینی بنانے اور سماجی و اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے وقف ہے، نے آزاد جموں و کشمیر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اپنی دفاعی ذمہ داریوں کے علاوہ فوج نے کمیونٹیز کی بہتری، انفراسٹرکچر کو بڑھانے اور مجموعی معیار زندگی کو بڑھانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ اس میں سڑکوں، پلوں، تعلیمی اداروں، طبی سہولیات اور پانی کی فراہمی کے نظام جیسے ضروری بنیادی ڈھانچے کا قیام اور بحالی شامل ہے۔ اپنی انجینئرنگ کور کے ذریعے فوج ایسے منصوبوں کی رہنمائی کرتی ہے جن کا مقصد کنیکٹیویٹی کو بڑھانا، نقل و حمل کو بہتر بنانا اور دور دراز علاقوں تک اہم خدمات کی فراہمی ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بناتے ہیں بلکہ سماجی و اقتصادی ترقی اور علاقائی انضمام میں بھی حصہ ڈالتے ہیں۔
اس کے برعکس مقبوضہ کشمیر کی صورتحال ایک طویل عرصے سے نظر انداز اور محروم ہونے کا تاثر دے رہی یے جہاں کے رہائشیوں کو ہندوستان کا نام نہاد اٹوٹ انگ ہونے کے باوجود بنیادی سہولیات اور ضروری خدمات کی کمی کا سامنا ہے۔ بھارتی حکومت، بھارتی فوج اور مقبوضہ کشمیر کی حکومت اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہی ہیں۔ مستقل نظامی امتیازی سلوک مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو ہندوستان کے دوسرے حصوں میں آسانی سے دستیاب مختلف سہولیات تک رسائی سے محروم کر تا ہے۔ ہسپتالوں، طبی سہولیات اور تربیت یافتہ پیشہ ور افراد کی کمی کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے کی شدید کمی ہے۔ بنیادی صحت کی دیکھ بھال حاصل کرنے کے لیے رہائشیوں کو اکثر طویل سفر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے علاج میں تاخیر ہوتی ہے اور صحت کی حالت خراب ہوتی ہے۔ مزید برآں، یہ خطہ ناکافی طبی آلات، تشخیصی سہولیات اور ضروری ادویات کا سامنا کر رہا ہے، جو آبادی کی صحت اور بہبود کو مزید خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ہندوستانی میڈیا، ہندوستانی حکومت اور پاکستان کے ریاست مخالف عناصر یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی گورننس آزاد کشمیر سے بہتر ہے۔ وہ اس گمراہ کن اور زہریلے پراپیگنڈے کا پرچار کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ آزاد کشمیر کے لوگوں کے مقابلے میں بہتر سہولیات اور سکون و اطمینان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کشمیر کے دونوں حصوں کی گورننس اور ترقیاتی کامیابیوں کا غیر جانبدارانہ موازنہ کرنا ضروری ہے۔
آزادانہ اور حقیقی تجزیہ ثابت کرتا ہے کہ آذاد کشمیر کے حالات مقبوضہ کشمیر سے بہت بہتر ہیں۔ آزاد کشمیر ایک مستحکم سیاسی ماحول میں پروان چڑھا ہے، جس کی خصوصیت اقتدار کی ہموار منتقلی اور ایک فعال جمہوری فریم ورک ہے۔ اس استحکام نے حکومت کو ترقیاتی اقدامات اور فلاحی پروگراموں پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل بنایا ہے۔ آزاد کشمیر کی معیشت نے مسلسل ترقی کا تجربہ کیا ہے، جو پن بجلی، بنیادی ڈھانچے، سیاحت اور زراعت میں سرمایہ کاری کے ذریعے کارفرما ہے۔ صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور سماجی خدمات میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کے مقابلے میں آذاد کشمیر میں اعلیٰ انسانی ترقی کے اشاریے جیسے کہ متوقع عمر، خواندگی کی شرح، اور فی کس آمدنی میں بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔
اس کے برعکس مقبوضہ کشمیر بار بار آنے والے سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہوا ہے، جس کی وجہ متواتر انتظامی تبدیلیاں اور ہندوستانی مرکزی حکومت کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں۔ یہ خطہ انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں سے دوچار ہے، جن میں آزادی اظہار، اجتماع اور نقل و حرکت پر پابندیاں شامل ہیں۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے صورتحال مزید بگڑ گئی ہے اور بھارتی حکام اور مسلح افواج کی طرف سے عوام پر مظالم کے سلسلے میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی معیشت کو ناکافی سرمایہ کاری، ملازمت کے محدود مواقع اور سیاحت میں کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سماجی بدامنی برقرار ہے، جس کی خصوصیت بار بار ہونے والے مظاہروں اور عام شہریوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کی طرف سے بھاری ہتھکنڈوں سے ہوتی ہے۔
مزید برآں، بنیادی ضروریات جیسے بجلی اور آٹے کی سستی کے حوالے سے بھی بے بنیاد دعوے گردش کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ آذاد کشمیر کے مقابلے میں مقبوضہ کشمیر میں اجناس کی قیمتوں کم ہیں۔ تاہم، یہ دعویٰ سراسر غلط ہے اور اس کا مقصد آزاد کشمیر اور پاکستان کے درمیان نفرت پیدا کرنا ہے۔ درحقیقت آزاد کشمیر میں 20 کلو گرام آٹے کی قیمت 1000 روپے اور 40 کلوگرام کی قیمت 2000 روپے ہے، جب کہ مقبوضہ کشمیر میں 40 کلو آٹے کی قیمت 4670 روپے ہے۔رہائشی اور تجارتی مقاصد کے لیے بجلی کے نرخ آذاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان قابل ذکر فرق ظاہر کرتے ہیں، آذاد کشمیر میں انکی قیمت بالترتیب 3 روپے اور 10 روپے یے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں انکی قیمت 18 اور 49 روپے ہے۔ یہ تضاد متعلقہ حکومتوں کی طرف سے اختیار کی جانے والی الگ الگ حکمت عملیوں کو نمایاں کرتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام، انسانی حقوق کے مسائل، اور معاشی جمود کے شکار مقبوضہ کشمیر کے برعکس آزاد کشمیر ترقی، استحکام اور اپنے باشندوں کی فلاح و بہبود پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔
موازنہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان،پاک فوج اور ریاست آزاد کشمیر کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں اس سے کہیں زیادہ مؤثر طریقے سے ادا کر رہے ہیں جو بھارت مقبوضہ کشمیر کے ساتھ کر رہا ہے۔ آزاد کشمیر کے لوگوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو تسلیم کریں اور ان کو پورا کریں۔ آزاد کشمیر میں کوئی انڈسٹری نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کوئی نمایاں فصل کاشت ہوتی ہے۔ ٹیکس اور ریوینیو جنریشن کی مد میں آذاد کشمیر کا حصہ بہت کم ہے۔ وسائل کے لیے پاکستان کی حمایت پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہوئے پاکستان کے دیگر صوبوں، جیسے کہ پنجاب اور سندھ کی جانب سے کیے گئے تعاون کو تسلیم کرنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان کے دیگر صوبوں میں صنعتیں اور زرعی پیداوار ہیں اور وہ حکومتی محصولات میں نمایاں حصہ ڈال رہے ہیں۔ انہیں اجناس پر سبسڈی بھی میسر نہیں۔
جب بجلی جیسی بنیادی ضرورت کی بات آتی ہے، تو اس کی فراہمی میں شامل پیچیدگیوں اور لوازمات کو سمجھنا بھی ضروری ہے، بشمول آلات، دیکھ بھال اور آپریشن کے اخراجات وغیرہ۔ اسی طرح، آٹے جیسی اشیاء کی قیمتوں کے تعین میں تمام متعلقہ اخراجات پر غور کرنا چاہیے۔ صورتحال کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے حقیقت پسندانہ مطالبات پیش کرنے چاہئیں۔
ریاست پوری تندہی سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے اور عوام پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے حصے کی ذمّہ داریاں پوری کرے۔ صرف علاقائی اور ذاتی فوائد پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے افراد کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایک مثبت رویہ اپنائیں اور پورے ملک اور ریاست کی فلاح و بہبود اور ترقی میں فعال کردار ادا کریں۔