شہزاد احمد اردو شعر و ادب کی اہم ترین شخصیت کے طور پر دنیائے ادب میں شہرت رکھتے تھے۔اردو کے اس بے مثال تخلیق کار کو دنیا سے رخصت ہوئے تیرہ برس ہو گئے ہیں،لیکن اپنی تخلیقی کاوشوں اور ادب کی بھر پور خدمت کے باعث ان کا نام تاریخ اردو ادب میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہے۔شہزاد احمد اردو کے بے مثال شاعر،مترجم ،دانشور اور گفتگو کے ھنر سے شناسا ایک ایسی شخصیت کا نام ھے،جنھیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔شہزاد احمد سے میری پہلی ملاقات 1990 ء میں صابر جالندھری مرحوم کے جواں مرگ شاگرد شاعر عارف جلیل کی برسی کے موقع پر ھونے والے مشاعرے میں ھوئی۔میرے والد شاعر درویش بشیر رحمانی بھی اس مشاعرے میں موجود تھے۔جس کے بعد ملاقاتوں کا ایک طویل سلسلہ چل نکلا۔
مشاعرے کے بعد شہزاد صاحب مجھ سے ملے اور الگ سے داد دی۔مجھے ان کے اس انداز پر حیرانی بھی ھوئی اور خوشی بھی ھوئی۔اس وقت میری عمر 22برس تھی۔والد محترم،شاعر درویش،مصوراحساس جناب بشیر رحمانی نے انھیں بتایا کہ میں کئی برس سے بچوں کے لئے کہانیاں بھی لکھ رہا ہوں۔شہزاد صاحب بہت خوش ہوئے اور اس ہنر کی الگ سے داد دی۔۔بعد ازاں شہزاد احمد صاحب نے میرے دوسرے مجموعے،چہروں سے بھری آنکھیں کا دیباچہ بعنوان ،رہائی نہ پانے کی خواہش ،لکھا تھا۔کتاب کا نام معروف شاعر جناب اظہار شاہین صاحب کے اس شعر سے اخذ کیا گیا تھا :
اتنا تجھ کو ڈھونڈا ھے
آنکھیں بھر گئیں چہروں سے
اس کتاب کو عظیم نقاد جناب مظفر علی سید نے 1993ء کے تین اہم شعری مجموعوں میں سے ایک قرار دیا تھا۔جسے میں آج بھی اپنے لئے اعزاز سمجھتا ہوں۔بات شہزاد صاحب کی ہورہی تھی تو
شہزاد احمد نہ صرف ایک معروف ادبی شخصیت اور جدید اردو غزل کے اہم شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔بلکہ پاکستان بننے کے بعد جو غزل جدید شعری ادب میں بھر پور تخلیقی توانائی کے ساتھ داخل ہوئی،اس میں شہزاد احمد کا نام چند سر فہرست شاعروں میں شامل ہے۔شہزاد احمد کی فکری کائنات ،پختہ کاری،نت نئے موضوعات ،مشاھدات ،تجربات اور اسلوب انھیں اپنے دور کے شعراء میں ایک اہم مقام سے نوازتا ہے۔انھوں نے غزل اور نظم دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن ان کا اصل میدان غزل ہی تھا یہ اور بات ہے کہ ان کی نظموں کے مجموعے اترے مری خاک پر ستارہ کو بھی بے حد پذیرائی ملی اور کتاب کے دیباچے میں احمد جاوید صاحب نے انھیں نہ صرف بھر پور خراج تحسین پیش کیا بلکہ دلائل سے ان نظموں میں موجود سائنسی شعور اور دیگر علمی مباحث کو ڈسکس کیا،لیکن میرے نزدیک وہ غزل کہنے میں جس کمال کی مہارت رکھتے تھے وہ کسی اور صنف میں نہیں تھی۔
شہزاد احمد ایک شاندار غزل گو ہونے کے علاؤہ عمدہ مترجم ،دانشور اور ڈرامہ نگار کے طور پر جانے جاتے تھے۔اس کے علاؤہ وہ اپنی گفتگو سے بھی سامنے والے کو نہ صرف اپنی گرفت میں لے لیتے تھے،بلکہ اکثر اوقات مختلف موضوعات پر ان کی تحقیقی گفتگو سب کو حیران کر دیتی تھی۔
۔اس کے بعد ایک طویل عرصہ لاھور کینٹ کے مشاعروں میں جانا ھوتا رھا۔شہزاد صاحب کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ مشاعرے کے لئے شعراء کو خود مدعو کرتے تھے۔اس وقت۔ موبائل تو نہیں تھا ۔لیکن وہ ٹیلی فون کرتے یا رابطے کا کوئی اور طریقہ اختیار کرتے،لیکن ان کے لاھور کینٹ کے مشاعروں میں نوجوان اور سینئر شاعروں سمیت ایک بہت بڑی تعداد موجود ھوتی تھی۔ان مشاعروں کی کامیابی میں ھمارے والد محترم کے دوست اور نامور شاعر جناب علامہ بشیر رزمی اور جناب احسان اللہ ثاقب بھی پیش پیش ھوتے تھے ۔
۔۔شہزاد صاحب ایک بہترین شاعر مترجم ،مقرر،ادیب،ڈرامہ نگار اور سکرپٹ رائٹر کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔وہ ایک کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ایک نفیس انسان تھے ،جو ہر عمر کے شاعر و ادیب کو ایک جیسی محبت دیتے تھے۔
شہزاد صاحب کو ان کی ادبی خدمات پر بہت سے سرکاری و غیر سرکاری اعزازات سے نوازا گیا۔ان کی غزلوں کے پہلے مجموعے ،،صدف،،نے ہی بے پناہ پذیرائی حاصل کی۔جو 1958ء میں شائع ہوا تھا ،جب کہ دوسرے مجموعے ،،جلتی بجھتی آنکھیں،،کو 1969ء میں آدم جی ادبی ایوارڈ ملا۔اس کے علاؤہ پیشانی میں سورج کو اقبال ایوارڈ ملا۔جب کی 1997ء میں انھیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی ملا ،جو یقینی طور پر سب سے بڑا اعزاز ہے۔اس کے علاؤہ نقوش ایوارڈ اور دیگر بہت سے اعزازات انھیں ملے اور انھوں نے دنیا کے بہت سے ممالک میں مشاعروں اور سیمینارز میں حصہ لیا اردو شاعری کے علاؤہ شہزاد صاحب کی پنجابی شاعری کی کتاب بھی شائع ہوا۔بحثیت نثر نگار ان کی کتابوں میں ۔۔۔مذہب تہذیب اور موت،،ذہن انسانی کا حیاتیاتی پس منظر،سائنسی انقلاب اور دوسرا رخ شائع ہوئیں۔انھوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کی کتاب کا ترجمہ بعنوان ارمان اور حقیقت بھی کیا۔شہزاد صاحب بیک وقت سائنس ،اوراس سے وابستہ علوم پر گہری نظر رکھتے تھے۔انہوں نے فلسفہ اور نفسیات پر متعدد مضامین لکھے۔1984ء میں شہزاد احمد کو دل کا دورہ پڑا اور ان کی کلینکل ڈیتھ ہو گئی۔لیکن بجلی کے جھٹکوں سے ان کی سانسیں بحال ہو گئیں اور کئی برس ژندہ رہے۔
۔شہزاد احمد 16 اپریل 1932ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے اور 1 اگست 2012 ء کو لاہور میں وفات پائی۔۔۔
۔۔دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائیں،آمین
آخر میں شہزاد صاحب کے چند مشہور شعر ملاحظہ کریں۔۔۔
میں ایسی پستیوں میں گھر گیا ہوں
کہ سورج بھی دیا لگنے لگا ہے
چھوڑنےمیں نہیں جاتا اسے دروازے تک
لوٹ جاتا ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے
میں ترا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر تجھ کو مرے ذہن میں آتا کیا ہے
رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا
یہ زندگی نہیں شہزاد کار عبرت ہے
جہاں سے دل نہ لگا یہ جہاں کسی کا نہیں
جب اس کی زلف میں پہلا سفید بال آیا
تب اس کو میرے مہ و سال کا خیال آیا
شہزاد احمد 1اگست 2012ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔اس وقت آپ