شاہنامہ” ایک نوید نو

تحریر ؛۔ جاویدایازخان
مشہور دانشور ڈاکٹر انور مسعود کے بقول “سفر نامہ کا سب سے قیمتی جزو اس کا افسانوٰ عنصر ہے قدرت نے جب انسان کو بنایا تو اس کے وجود کو تراشتے وقت اس کے سینے میں چپکے سے داستان کی دیوی کی محبت کو بھی بٹھا دیا ۔داستان کے اس حصے نے جس میں کہانی بیان کی جاتی تھی افسانے کا روپ دھار لیا اور دوسرے حصے نے جس میں حالات سفر بیان ہوتے تھے سفر نامے کی شکل اختیار کرلی اور اردو میں ایک ایسی صنف کا اضافہ ہوا جس میں آنکھوں دیکھے مشاہدے کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے ” یہ بالکہ درست ہے لیکن میرے نزدیک جدید سفر نامہ دراصل تمام اب اصناف سخن و ادب کا امتزاج بن چکا ہے ۔آج سفر نامہ معلوماتی ادب کی علامت اور دلچسپی کے لحاظ سے سرفہرست ہے ۔
ضلع رحیم یار خان کی تاریخی تحصیل خان پور کے باسی اور ایک نہایت پڑھے لکھے ادب دوست اور معزز سید خاندان سے تعلق رکھنے والے اور پیشہ کے کی نسبت سے مسیحائی کاشرف حاصل کرکے ڈاکٹر جیسے مقدس پیشے سے وابستہ نوجوان ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری جو بچپن سے ہی اردو ادب سے لگاو اور لکھنے کی صلاحیتوں سے مالا مال رہےہیں ۔ان کا پہلا سفر نامہ “شاہنامہ ” کے نام سے طباعت کے زیور سے آرستہ ہوکر قارئین کے ساتھ ساتھ یہ قیمتی نسخہ ان کی جانب سے مجھے بھی عطا ہوا ۔کتاب کے ٹائٹل اور کور صفحات کو بڑے خوبصورت رنگ سے سجایا گیا ہے ۔اس پر موجود نایاب تصاویر سے ہی احساس ہوجاتا ہے کہ یہ کچھ خاص ضرور ہے ۔پڑھنے پر محسوس ہوا کہ یہ صرف سفر نامہ ہی نہیں ہے بلکہ معلومات سے ساتھ ساتھ علم وادب کی ایک عمدہ سوغات بھی ہے ۔جس سے تاریخ ،سیاحت،اپنے وسیب اور وطن کی مٹی سے محبت کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی کا لطف اٹھانے کا موقع بھی ملتا ہے ۔فنی طور پر یہ “شاہنامہ “ایک ایسا بیانیہ ہے جو سفر نامہ نگار کے دوران سفر یا اختتام سفر پر اپنے مشاہدات ،کیفیات اور اکثر اوقات قلبی واردات سے مرتب ہوا ہے اس لیے” شاہنامہ “کو ایک ہی نشست میں پڑھا اور اس کا لطف اٹھایا ۔”شاہنامے “میں سفر اور تاریخ لکھنے کی بنیادی وجوہات جیسے کہ کسی جگہ کی تاریخ ،رسم ورواج کا مطالعہ ، دنیا کی خوبصورتی ،زرعی دور کا مشاہدہ ،وسیب کی ثقافت ، بود وباش ، خوردونوش ،طرز زندگی ،پہاڑون کے تفریحی لمحات اور ریگستان کی تلخیاں عمدہ تازہ اور شگفتہ اسلوب اور الفاظ سے پیش کی گئی ہیں جو بنیادی طور پر مصنف کی اصل خوبی کو ظاہر کرتی ہیں ۔ اپنے وسیب اور وطن سے محبت کے اظہار کے ساتھ ساتھ ملکی سیاحت کے فروغ کے لیے سید محمد عظیم شاہ بخاری کی یہ کاوش قابل تعریف ہے ۔ان کی خوبصورت فوٹو گرافی ،آثار قدیمہ اور نودارت کے مشاہدے کو اپنے” شاہنامہ” میں سمو دینا ان کی ذوق و شوق کی ترجمانی نظر آتی ہے ۔ جو ان کی جدید سفر نگاری اور بصارت کی جانب ایک اچھا اشارہ ہے ۔عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ ” مشاہدہ خبر کے برابر نہیں ہو سکتا “مشاہدے سے ہی منظر نگاری،کردار نگاری اور وقائع نگاری میں حقیقت کے رنگ بھر جاتے ہیں ۔سفر نامہ نگار کا اہم فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ اس کیفیت کو بھی اپنی تحریر یا سفر نامے میں سمو دے جس سے وہ گزرتا ہے ۔ان کی اس تحریر میں جغرافیائی کیفیت و تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ فطری مناظر کے اسرار بھی کھلتے محسوس ہوتے ہیں اور یہی ایک اچھے سفر نامےکا وصف ہوتا ہے کہ تاثرات و مشاہدات کا سلیقہ مند اظہار بہترین اسلوب اورشگفتہ الفاظ میں کیا جاے ٔ تاکہ قاری کا تجسس و دلچسپی برقرار رہے اور وہ معلومات کے ساتھ ساتھ تحریری لذت سے لطف اندوز بھی ہو سکے بلکہ ایسا محسوس کرے کہ وہ پڑھ نہیں رہا بلکہ ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہے اور تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ۔ اپنے دیباچہ میں ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری نے اپنا بنیادی مقصد سیاحت کو فروغ دینا اور نت نئے علاقوں کے بارے میں معلوماتی فراہمی کو خوب بیان کیا ہے یقینا” وہ اپنے مقصد می کامیاب رہے ہیں بلکہ ان کے بےشمار دوسرے ادبی جوہر بھی سامنے آگئے ہیں ۔جو انہیں سفر نگاروں کی صف میں نمائیاں کرتے ہیں ۔ اور جدید معلوماتی ادب کے لیے ایک نوید نو دکھائی دیتے ہیں ۔ کتابوں کے اس بحرانی دور میں کوئی نئی کتاب اور وہ بھی سفر نامہ لکھنا بذات خود کسی کارنامے سے کم نہیں ہے ۔کہتے ہیں کہ جس طرح فن فنکار کی شخصیت کا پرتو ہوتا ہے اسی طرح سفر نامہ دراصل سفر نگار کی طبعیت کا بہترین عکاس بھی ہوتا ہے ۔”شاہنامہ “پڑھ کر ادب دوست اور صاحب ذوق ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری صاحب کی شخصیت اور ان کی صلاحیتوں کا ندازہ لگانا ذرا بھی مشکل نہیں ہے ۔ “شاہنامہ” میں ان کے اسلوب کی پختگی اور شگفتگی کی جھلک بھی نمائیاں دکھائی دیتی ہے ۔جو آج کے اردو ادب اور کتابوں کے اس مشکل اور قحط زدہ ماحول میں ہمارے اردو معلوماتی ادب میں ایک نیا اور خوشگوار اضافہ تازا ہوا کے کسی جھونکے کی مانند ہے ۔سفرنامہ میں ان کا مضمون “جہلم داستان” اور “چنیوٹ کا تاج محل ” پڑھ کر ان کی بطور لکھاری فنی صلاحیت کا اعتراف ضروری ہے ۔
اردو میں ماسٹرز کے دوران پڑھا تھا کہ سفر نامہ ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس میں بیرونی ادب ،تلاش بینی ،مہم جوئیانہ ادب یا قدرتی تحریر یں ،رہنما کتب اور دوسرےملکی و غیر ملکی اہم مقامات کا تذکرہ شامل ہوتا ہے ۔سفر عربی کا لفظ ہے جس کے معنی مسافت کرنا کے ہیں ۔اس کو لکھنے کا مقصد قارئین کو اپنے تجربات ،مشاہدات اور واقعات سے آگہی دینا اور عام انسان کے اندر دیار غیر اور ان مقامات کے بارے میں جاننے کی خواہش اور شوق پیدا کرنا ہوتا ہے ۔داستان سفر سنانا یا لکھنا اور اس دوران قاری کی توجہ حاصل کرنا سفر نامے کی اصل خوبصورتی ہوتی ہے ۔جو الفاظ کے چناؤ اور تحریر کی چاشنی سے ہی ممکن ہوتی ہے ۔لکھاری کا ذوق و شوق اور بیان کی مہارت سفرنامے کو دلچسپ بنادیتی ہے ۔ مشہور دانشور ڈاکٹر سید عبداللہ اپنے ایک سفر نامے میں تحریر فرماتے ہیں کہ “سفر نامے کی صنف میں تمام اصناف کو اکھٹا کردیا جاتا ہے ۔اس میں داستان کا داستانوی طرز ،ناول کی فسانہ طرازی ،ڈرامے کی منظر کشی ،آپ بیتی کا مزہ ،اور جگ بیتی کا لطف اور پھر سفر کرنے والا جزو تماشا ہو کر اپنے تاثرات کو اس طرح بیان کرے کہ اس کی تحریر پر لطف بھی ہو اور معاملہ افزا بھی ” اسی طرح ڈاکٹر مختار الدین احمد نے لکھا تھا کہ ” سفر نامے میں دو خوبیاں ضرور ہونی چاہیں ۔ایک تو وہ قاری کے دل میں سیر وسیاحت کا شوق پیدا کردے اور اگر پہلے سے موجود ہے تو سفر نامہ آتش شوق کو تیز تر کردے ۔دوسری یہ کہ منظر کشی ایسی مکمل اور جاندار ہو کہ ہر منظر کی صیح اور سچی تصویر آنکھوں کے سامنے آجاے ٔ ” میرے استاد کہتے تھے کہ سفر نامے کی اہمیت و افادیت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے آج بھی ابن بطوطہ کو پڑھا جاتا ہے ۔سفر نامہ کبھی پرانہ نہیں ہوتا۔جب بھی پڑھیں گے نیا ہی لگتا ہے ۔مجھے “شاہنامہ ” میں بیان کردہ بیشتر اوصاف اس سفر نامہ میں دیکھنے کو ملے ہیں ۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ !
ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری کے تحریری سفر کا یہ آغاز بہت شاندار ہے جس پر میں انہیں دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔میں کتاب کے صفحہ آخر پر دئے گئے تاثرات کو دوہرانا چاہوں گا کہ اگرچہ شائقین کتب کے لیے یہ کتاب بارش کا پہلا قطرہ ہے لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ یہی قطرہ آگے چل کر موسلا دھار بارش کا پیش خیمہ ثابت ہو گا ۔ان کی اردو ادب اور کتابوں سے محبت ضرور رنگ لاے گی اور مستقبل قریب میں معلوماتی ادب کی ترویج و ترقی میں ان کا کردار مزید موثر ثابت ہو گا ۔اور یہ پرورش لوح وقلم یونہی کرتے رہیں گے ۔ کتابوں کے شوقین حضرات یہ کتاب اس نمبر پر رابطہ کرکے طلب کر سکتے ہیں ۔( ۰۳۱۲۷۳۵۳۰۸۸)

Comments (0)
Add Comment