تحریر ۔۔۔ مرزا روحیل بیگ
میرے والد محترم 9 مئی کو مختصر علالت کے بعد اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے، مجھ سمیت ہمارے پورے خاندان پر سوگ طاری ہو گیا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ والد کے گزر جانے کے بعد سر پر سایہ نہیں رہتا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انسان بولنا اور لکھنا بھی بھول جاتا ہے۔ کئی دفعہ کوشش کی کہ کالم لکھوں یقین جانیئے کاغذ قلم لیئے کوشش کرتا رہا لیکن میرے قلم سے الفاظ کا ذخیرہ شاید ختم ہو گیا تھا۔ اتنے دن گزر جانے کے بعد اب سمجھ آئی ہے کہ میرے رب کی یہی رضا تھی اور ہم نے بھی ایک دن اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ اللہ کی رضا قبول کرنے میں ہم جیسے کمزور ایمان والے لوگوں کو وقت لگ جاتا ہے۔میرے والدمحترم ایک خودار آدمی تھے، وہ گھٹنوں کے درد کے ساتھ ساتھ عارضہ قلب میں بھی مبتلا تھے۔ اُن کا ریگولر چیک اپ ہوتا تھا۔ چند مہینے پہلے پیشاب کا انفیکشن ہوا جو بگڑتا چلا گیا ۔ آخری دنوں میں پھیپھڑوں اورگُردوں کا عارضہ لاحق ہو گیا، آخری روز ہارٹ اٹیک ان کی وفات کا سبب بن گیا۔ میں شکرگزار ہوں اپنے علاقہ معززین کا جو مجھے حوصلہ دینے کے لیئے تشریف لائے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی، سماجی، صحافی، بیوروکریٹس، ممبران صوبائی و قومی اسمبلی اور اپنے دوست احباب کا تہہ دل سے مشکور ہوں جو دُکھ کی اس گھڑی میں میرے ساتھ کھڑے ہوئے۔ میرے والد 1951 میں پیدا ہوئے، تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور چند سال بعد سکول سے واپس آ کر سخت محنت مزدوری شروع کی۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو میرا خاندان ہندوستان سے پاکستان کے ضلع سیالکوٹ کے شہر ڈسکہ کے نواح میں مقیم ہوا، وہیں میرے والد صاحب پیدا ہوئے اور اُن کا بچپن بھی وہیں گزرا۔ میرے والد صاحب نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر اپنے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اُٹھائی اور اپنے بھائیوں کو پڑھایا اور کامیاب بنایا۔ میرے والد میرے ہی نہیں ہمارے سارے خاندان کے محسن تھے۔ اُنہوں نے ہمیں باوقار زندگی گزارنے کی ٹریننگ دی اور اللہ کے فضل و کرم سے آج ہمارے خاندان کا شمار علاقے کے مضبوط اور مستحکم خاندان میں کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ اس سٹیٹس اور مرتبے کے پیچھے میرے والد کی ساری زندگی کی محنت، ایمانداری، سیاسی و سماجی خدمات اور خلوص نیت شامل تھی۔ میرے والد نے محدود وسائل کے باوجود نوابوں کی طرح زندگی گزاری، شروع سے لیکر آج تک اچھا صاف ستھرا اندازِ زندگی اپنایا۔ ہمیشہ اچھا لباس، پرفیوم اور جوتے استعمال کیئے۔ ہمارے سارے خاندان کے لیئے ان کی زندگی مشعل راہ ہے۔ علاقہ معززین نے آج تک میرے والد کی ہر رائے کو مقدم جانا۔ کسی کو بھی کوئی مسلہ درپیش ہوتا تو والد صاحب اپنی بصیرت اور صلح جو طبیعت کے باعث چند منٹوں میں حل کر دیتے اور ایسا فیصلہ صادر فرماتے کہ ہر کسی کو قابل قبول ہوتا۔ اپنے محدور وسائل میں ہم سات بھائی بہنوں کو اچھے تعلیمی اداروں سے تعلیم دلوائی۔ اُن کا سب سے اہم پیغام یہی ہوتا تھا جھوٹ کبھی نہیں بولنا اور نماز کی پابندی کرنا اور جو تعلقات ایک بار بن جائیں وہ کبھی ٹوٹنے نہ پائیں۔ اچھے برے کی پرکھ کرنا انہیں کی بدولت سیکھا۔ اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ میں آج ایک اچھی زندگی گزار رہا ہوں۔ بلاشبہ میرے والد میرے استاد، میرے دوست اور میرے محسن تھے۔ مجھ پر اور میرے خاندان پر ان کے احسانات کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ لکھنے بیٹھ جاؤں تو شاید سو کالم بھی کم پڑھ جائیں۔ میرے والد کو لحد میں اتارنے کے بعد سخت گرم موسم میں ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہو گئیں۔ میں ہر پل دعا گو ہوں کہ اے اللہ کریم میرے والد کی کمیوں، کوتاہیوں کو معاف فرما کر ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما، ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے اور انہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت نصیب فرما دے اور ہمیں صبر آمین