ذخیرہ اندوزی: سیاستدانوں اور مافیاز کا گٹھ جوڑ

ایم فاروق انجم مسعد

جب قوموں کی قیادت ایمانداری چھوڑ دیتی ہے، جب حکومتی ادارے سرمایہ داروں کی جیب میں چلے جاتے ہیں، جب مذہبی، سماجی اور اخلاقی اقدار کو پامال کیا جاتا ہے، تو وہاں ظلم پنپتا ہے، ناانصافی فروغ پاتی ہے، اور ذخیرہ اندوزی جیسی لعنت جنم لیتی ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جہاں زمین سونا اُگلتی ہے، جہاں پانی، فصلیں، اور محنت کش عوام موجود ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پھر بھی آٹا، چینی، گھی، سبزیاں، دالیں اور پیٹرول کیوں عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے: ذخیرہ اندوزی۔ ایک منظم سازش جس نے ملکی معیشت کو کھوکھلا اور عوام کو بدحال کر دیا ہے۔

اسلام نے معاشی اصولوں میں توازن، عدل، اور مساوات کو بنیادی ستون قرار دیا ہے۔ ذخیرہ اندوزی، ان تمام اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
“جو شخص غلہ روک کر اس کی قیمت بڑھنے کا انتظار کرتا ہے، وہ گناہگار ہے”
(صحیح مسلم)

ایک اور حدیث میں فرمایا گیا: “جو ذخیرہ اندوزی کرے، اللہ تعالیٰ اس پر فقر و فاقہ مسلط کر دیتا ہے”

اسلامی ریاست میں تو خلیفہ وقت عام آدمی کے لیے احتساب کے کٹہرے میں کھڑا ہو سکتا ہے، مگر ہمارے ہاں طاقتور ذخیرہ اندوزوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا جاتا۔

مہنگائی کا ایک بڑا سبب مصنوعی قلت پیدا کرنا ہے، جو ذخیرہ اندوزی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ جب مارکیٹ سے کسی شے کو بڑی مقدار میں ہٹا دیا جاتا ہے، تو طلب بڑھتی ہے اور رسد کم ہو جاتی ہے، یوں قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب ذخیرہ اندوز اپنی کمائی وصول کرتے ہیں۔ مگر یہ کمائی دراصل غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر حاصل کی جاتی ہے۔

ذخیرہ اندوزی نہ صرف مارکیٹ کے توازن کو بگاڑتی ہے بلکہ صارفین کے اعتماد کو بھی مجروح کرتی ہے۔ لوگ بدگمانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ شاید ہر چیز جعلی مہنگی ہے، اور یہی سوچ بلیک مارکیٹ کو فروغ دیتی ہے۔

پاکستان میں غربت ایک بھیانک حقیقت ہے۔ جب کسی بھی بنیادی چیز کی قیمت بڑھتی ہے، تو اس کا سب سے زیادہ اثر نچلے طبقے پر پڑتا ہے۔ ایک ریڑھی بان، ایک مزدور، ایک سلائی کرنے والی عورت—یہ سب جب بازار میں جاتے ہیں، تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ آٹے، چینی یا گھی کی قیمت میں پھر اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے بچوں کا پیٹ خالی رہے گا۔

ذخیرہ اندوزی صرف مالی جرم نہیں، یہ ایک اخلاقی، انسانی، اور معاشرتی جرم ہے۔ یہ مظلوموں کے چہروں سے مسکراہٹ چھیننے کا عمل ہے۔ ان معصوم بچوں کی بھوک کا ذمہ دار کون ہے جو اسکول چھوڑ کر مزدوری پر مجبور ہو جاتے ہیں؟ صرف وہی جو ذخیرہ اندوزی سے اربوں روپے کما رہے ہیں؟

یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ملک میں چینی، آٹا، گھی، پیٹرول، سیمنٹ، اسٹیل، اور یہاں تک کہ عدویات کی ذخیرہ اندوزی میں وہی لوگ ملوث ہیں جو بڑے صنعتکار، تاجر یا سیاست دان ہیں۔ ان میں سے کئی حکومتوں میں وزیر، مشیر یا بااثر افراد کے قریبی دوست ہوتے ہیں۔ یہی مافیا اصل حکومت ہوتی ہے۔

سال 2020 میں چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ آئی، تو انکشاف ہوا کہ سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے افراد موجودہ حکومت کے اتحادی یا اس کے اپنے ارکان تھے۔ مگر نتیجہ؟ نہ کسی کو سزا ملی، نہ کسی کے خلاف مقدمہ چلا۔

ذخیرہ اندوزی کے خلاف قوانین تو موجود ہیں، مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ 1958ء کا ضروری اشیاء کنٹرول آرڈیننس ہو یا حالیہ “اینٹی ہوارڈنگ ایکٹ”—مسئلہ قانون کا نہیں، نیت کا ہے۔

جب حکومت خود کسی مافیا کی سرپرستی کرے، تو پھر عوام کہاں جائیں؟ چھوٹے دکانداروں پر چھاپے مارنا اور بڑی گوداموں پر خاموشی اختیار کرنا ایک دُہرا معیار ہے۔ جب تک حکومت خود کو غیر جانبدار، سخت گیر اور بااختیار ثابت نہیں کرتی، تب تک مافیاز کا راج قائم رہے گا۔

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں ذخیرہ اندوزی کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ 1950ء میں تقسیم ہند کے بعد غلے کی قلت، 1970ء میں چینی کا بڑا بحران، 2008 میں آٹا اور چینی کی شدید کمی، 2020ء کورونا کے دوران ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں ہوشربا اضافہ
2022-24: پیٹرول، آٹا، اور گھی کی قیمتیں ہر ہفتے تبدیل ہوتی رہیں، ہر بحران کے پیچھے وہی پرانی طاقتیں سرگرم رہیں—بڑے کاروباری، مافیاز، اور سیاسی سرپرست۔

ذخیرہ اندوزی صرف گودام بھرنے تک محدود نہیں۔ اب یہ ایک “سائنس” بن چکی ہے۔ اس سائنس کے تحت اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے، برآمد کی اجازت لے کر قلت بڑھائی جاتی ہے، میڈیا پر جھوٹی خبروں سے خوف پھیلایا جاتا ہے، موسمی اشیاء کو “سیزن سے پہلے” اٹھا لیا جاتا ہے اور آن لائن اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر منافع خوری بھی اس سائنس کا حصہ ہے۔

اکثر یہ جواز دیا جاتا ہے کہ مہنگائی عالمی مسئلہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب عالمی سطح پر قیمتیں کم ہوتی ہیں تو ہمارے ہاں کمی نہیں آتی۔ اس کا مطلب ہے کہ ذخیرہ اندوزی اور مقامی مفاد پرستی اصل مسئلہ ہے۔ اگر حکومت چاہے تو سستی درآمدات سے قیمتیں کم کر سکتی ہے، مگر وہ ایسا نہیں کرتی کیونکہ ایسا کرنے سے مافیاز ناراض ہو جاتے ہیں۔

ذخیرہ اندوزی صرف حکومت کا مسئلہ نہیں، یہ عوام کا بھی مسئلہ ہے۔ جب ہم خود بلیک میں چیزیں خریدتے ہیں، تو ہم بھی اس جرم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ عوامی بیداری، معاشرتی شعور، اور بائیکاٹ مہمات کے ذریعے ذخیرہ اندوزی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم ایک دن کے لیے بھی غیر ضروری خریداری بند کر دیں تو مافیا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

ذخیرہ اندوزی جیسی لعنت کو ختم کرنے کیلئے کم از کم 10 سال قید اور بھاری جرمانہ کیا جائے، مافیا کی جائیدادیں ضبط کی جائیں, تمام گوداموں کا ڈیجیٹل ریکارڈ رکھا جائے, ضلعی سطح پر ذخیرہ اندوزی کی مانیٹرنگ کمیٹیاں بنائی جائیں, میڈیا کو آزادانہ رپورٹنگ کی اجازت دی جائے اور عدالتوں میں انسداد ذخیرہ اندوزی کے خصوصی بنچ

Comments (0)
Add Comment