تحریر: محمد عمیر خالد
آج کے ترقی یافتہ دور میں سائنس، صنعت اور ٹیکنالوجی کی سٹیٹ کرافٹ میں بیورو کریسی سرمایہ اور آزاد میڈیا انتہائی بنیادی اور اہمیت پر مبنی رول ادا کرتے ہیں۔ ایک اچھی بیورو کریسی میرے خیال میں وہ نہیں ہوتی جسے لاء اینڈ آرڈر پر پوری گرفت ہو بلکہ اُس کے برعکس اچھی بیوروکریسی پر لاء اینڈ آرڈر کی گرفت اگر کمزور ہو تو وہ بیوروکریسی بے راہ روی کا شکار ہو جائے گی۔ یہاں پر ہمارے لیے یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کی وہ بیورو کریسی جو خود لاء اینڈ آرڈر کی پیداوار نہ ہو وہ ملک، صوبے اور شہر میں لاء اینڈ آرڈر کو قائم رکھنے سے معذور ہو گی۔ میری اس بات کا اندازہ آپ کو ریاستِ پاکستان کے حالات و واقعات دیکھ کر بخوبی ہو جائے گا۔
یاد رکھیے گا کسی بھی ملک کی ترقی میں حکمرانی کا دوسرا بڑا ستون اُس ملک کی سرمایہ کاری ہوتا ہے۔ سرمایہ کاری کے بغیر کوئی بھی ملک جدید صنعتی ریاست نہیں بن سکتا۔ اور میری سوچ یہ کہتی ہے کہ سرمایہ وہ کبھی اچھا نہیں ہوتا جو غریب عوام کو قابو میں کر لے بلکہ سرمایہ وہ اچھا ہے جس پر عام عوام کی مکمل گرفت ہو۔ اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاستِ پاکستان میں سرمائے کی نمو کسی لاء اینڈ آرڈر کی یا بادشاہت کی پابند ہے؟
بلیک مارکیٹنگ کا سرمایہ، ناجائز اسلحے کی سمگلنگ کا سرمایہ، ٹیکسوں کی چوری بجلی چوری، گیس چوری، پانی کی چوری اور ہر طرف چوری ہی چوری قومی املاک کا سرمایہ لاء اینڈ آرڈر کے خلاف ستم بلائے ستم ڈھا رہا ہے۔ پاکستان میں کرپشن پر کرپشن اور پھر کرپشن دن بہ دن پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ مگر پھر بھی پاکستان کے محب وطن مخلص، محنت کش سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کے مطابق اُن کے ہوتے ہوئے اور اُن کے بقول اُن کی وجہ سے پاکستان میں اس وقت کسی بھی طرح کی کوئی پریشانی اور مشکل موجود نہیں ہے۔ سیاستدانوں کے مطابق نہ تو پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ ہے، نہ معیشت کو کوئی پریشانی ہے، نہ روزگار کا کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہی غریب عوام کی خوشحالی کا کوئی مسئلہ در پیش ہے۔ اگر ہم اپنے پیارے اور محب وطن سیاستدانوں کی باتوں پر یقین کر لیں تو پھر ہمیں یقین کر لینا چاہیے کہ بہت جلد پاکستان دنیا کے نقشے سے ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ پاکستان کے سیاست دانوں کو ملک، ریاست اور عوام سے کسی بھی طرح کا کوئی سر و کار نہیں ہاں البتہ سر و کار ہے تو اپنی ذاتی خود غرضی سے۔
حکمرانی کا تیسرا بڑا اور اہم ترین ستون ملک کا آزاد میڈیا ہے یہ تو سچ ہے کہ آج کے جدید دور میں پاکستانی میڈیا ایک صنعت کے طور پر ہی کامیابی حاصل کر رہا ہے میرے خیال میں آزاد میڈیا اگر ایک صنعت ہے تو انفارمیشن، مِس انفارمیشن اور ڈِس انفارمیشن اس کی مصنوعات ہیں۔ یاد رہے کہ اصلاحِ احوال کے لیے مسئلہ میڈیا کی مکمل آزادی کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ سرمائے کی کوالٹی کا ہے۔ مافیا گروپ، اسلحہ گروپ، قبضہ گروپ، فیوڈل گروپ، صنعتی گروپ، بدمعاش گروپ، جاگیردارانہ گروپ، ادبی گروپ، تعلیمی گروپ، معاشرتی گروپ یا نسلی گروپ نیز ہر ایک گروہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کو رشتوتیں لگا کر اپنے اپنے مقاصد کے لیے بھرپور انداز سے استعمال کر رہا ہے۔ آج پاکستان میں میڈیا کو ایک اور مجبوری کا سامنا بھی ہے وہ یہ کہ میڈیا مارکیٹ کے مطابق بھرپور رشوتیں لے کر غلط یا صحیح انفارمیشن کی سپلائی عوام کو کرے اور اپنی تجارت کو اور اپنے میڈیا گروپ کو دن بہ دن ترقی کی طرف لے جائے۔
پاکستان میں آج لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ انتظامی امور سے زیادہ صنعتی و ثقافتی مسئلہ بن چکا ہے۔ ناجائز ٹیکسوں کی بھرمار نے عام اور غریب عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ آج اگر کوئی بھی انسان جو کہ پاکستانی شہریت کا حامل ہو، اگر وہ اپنے محب وطن حکمرانوں سے ناجائز، ناحق اور بے جا ٹیکسوں کے حوالے سے سوال کرے تو اُس غریب اور عام انسان کو بہت ہی پیارا جواب سننے کو ملتا ہے وہ یہ کہ پاکستان میں اگر جینا ہے تو جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے اصول اور قانون کے مطابق زندگیاں گزارو اور اگر ایسا کرنے میں تکلیف محسوس کرو تو خودکشی کر کے اپنے آپ کو مکمل سکون فراہم کر لو۔ ایسے ظالمانہ، بیمانہ، معاشرے میں زندگی گزارنے سے بہتر تو خودکشی کو ہی اہمیت دی جائے گی اور دی جا رہی ہے۔ ہاں البتہ ایک چیز کی خوشی قابل دید ہے وہ یہ کہ ملک کے محب وطن اور مخلص سیاستدانوں کے بقول ہمارا ملک خوشحال، معاشرتی ترقی، امن و امان، لاء اینڈ آرڈر کی مکمل نمائندگی کے حوالے سے بہت آگے جا رہا ہے اور موجودہ ملکی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں ملک میں درپیش مسائل لاء اینڈ آرڈر کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے سوچ و بے چار کرنے اور اپنی خوشحالی کے لیے بہتر سے بہتر اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔