تحریر: خالد غورغشتی
محترم قارئین ! دنیا کی حقیقت بھی بڑی نرالی ہے ، اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا ۔ یہی حال والد کا ہے۔ وہ دن رات محنت و مشقت کرتا ، قربانیاں دے کر گھر والوں اور رشتہ داروں کو پالتا ہے ۔ نہ اس کی کوئی قدر و قیمت ہوتی ہے ،نہ اسے کوئی مانتا ہے ۔ اس کے پیچھے کیا فلسفہ پوشیدہ ہے آئیں اس پر غور کرتے ہیں ۔
در اصل ہم انصاف کیے بغیر سب کو ایک نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ جہاں تک ہماری نام نہاد عقل مندی کی بات ہے تو ہم دوسروں کی مجبوری سمجھتے ہی کب ہیں ۔
یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ سوچنے کے بغیر سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت نا پید ہو جاتی ہے ۔ اسی وجہ سے آج رشتوں کا تقدس پامال ہو چکا ہے ۔
بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد پہلے ففتھ اور اب سکستھ جنریشن وار ہم پر مسلط کر دی گئے ہیں ۔ چوں کہ ہم ہر معاملے میں سوچنے ، سمجھنے اور پرکھنے سے بیزار ہو چکے ہیں لہذا بچوں کے ہاتھوں میں سمارث فون تھما دیا ہے ۔
جسے وہ دیکھ دیکھ کر، کم عمری میں ہی، بصارت سے محروم ہو کر عینک والے جن بنتے جا رہے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے جب کم عمر بچوں کو سمارٹ فون پکڑا دیں گے تو اُنھیں اس کی نَحوست سے کیسے بچا سکتے ہیں ؟ جُوں ہی وہ بلوغت کو پہنچتے ہیں، سوشل میڈیا کی عریانی دیکھ دیکھ کر ایسے ہو جاتے ہیں کہ ان سے گھر کی عزتیں بھی غیر محفوظ ہو سکتی ہیں ۔
کسی نے نَسل نُو کو کہا : ٹک ٹاک بناؤ ، لوگ بہت پسند کرتے ہیں مشہور ہوجاؤ گے ۔ ایک اور نے مشورہ دیا صرف یہ بنانی ہی نہیں ہوتیں ، ساتھ ساتھ فین فالورز بھی بڑھانے ہوتے ہیں ۔
پھر کسی نے کہا: جناب پیسے بھی کمانے ہوتے ہیں ۔ اب سونے پر یہ سہاگہ کہ وی لاگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔
کچھ لوگ چند ہزار کے لیے گھر کی خواتین کو نیم برہنہ حالت میں کیمرے کے سامنے بٹھا دیتے ہیں۔ اور ان سے ایسی عریانی پھیل رہی ہے کہ بالی وڈ ، لالی وڈ اور ٹیلی وڈ والے بھی شرما کر رہ جاتے ہیں ۔ اگر یہ سلسلہ فوراً بند نہ ہوا تو ہمارے معاشرے میں حرام رشتے ، ہم جنس پرستی اور بدکاری ہی بدکاری رہ جائے گی ۔ دُنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی قوم میں جب یہ اخلاقی امراض پھیل جانے ہیں تو وہ تباہ ہو کر رہ جاتی ہے ۔