تحریر: ڈاکٹر مظفر عباس
پیشےکےلحاظ سےڈاکٹر،شوق و عمل کے لحاظ سے پروفیسر،تجسس و تعمق کے لحاظ سےمحقق اور اقبالیات پر اپنی تصانیف اور تفہیم اقبال کے اعتبار سےوحید العصر-میری مراد پروفیسر ڈاکٹر وحیدالزمان طارق سے ہے جو اپنے بے پایاں خلوص اور محبت کے حوالے سےمیرے لئے بھائیوں جیسا درجہ رکھتے ہیں- میرا ارادہ آج اُن کی دلچسپ و دلآویز کہانی کو بیان کرنے کاہے-کہانی کا آغازمولانا روم کی غزل کے اشعار سے کرتے ہیں – دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر /کز دام و دد ملولم وانسانم آرزوست / زیں همرهان سسست عناصردلم گرفت/ شیر خدا و رستم دستانم آرزوست/گفتم کہ یافت مینشود جستهایم ما/گفت آنچہ یافت می نشود آنم آرزوست-اس کامطلب یہ ہے کہ ایک شیخ شہر میں دن کے وقت چراغ لے کر انسان کی تلاش میں نکلے تھے،ایسانسان جو روحانیات کےاعتبارسےمولاعلی علیہ السلام جیسااعلم و اشجع اور دنیاوی اعتبارسےرستم جیسا قوی ہو،لیکن تلاش بسیار کے باوجود اُن کو ایسا انسان نہ مل سکا،اس کا ذکر اُنہوں نے اگلے شعر میں کیا ہےیہ حقیقت ہے کہ ہمہ صفات اور ہمہ اوصاف فردالللہ کاخاص انعام ہوتا ہےاور جس معاشرےکو یہ میسرہوجائےاُس کی قسمت بدل جاتی ہے-ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں توہمیں ایسے کتنے لوگ نظر آتے ہیں جو ہشت پہلو شخصیت کےحامل ہیں،فی زمانہ اس طرح کی مثالیں نایاب نہیں کمیاب توضرور ہیں،ان ہی کمیاب مثالوں میں ایک زندہ مثال پروفیسر ڈاکٹر وحیدالزمان طارق بھی ہیں جوہمہ جہت وہمہ صفت شخص ہیں،اُن کی شخصیت کاہر ایک پہلو ہمارے لئےراہنماروشنی کی حیثیت رکھتا ہے،ایک ایساطبیب جوانسانی جسم کے امراض کا علاج کرتا ہے اور ایسا مفکر ودانشورجوانسانی روح کی پیاس بجھانے کےساتھ تمام تر ذہنی اُلجھنوں کو بخوبی رفع کرتاہے اوروہ خودمولاناروم جیسےمرشد کامل اورعلامہ اقبال جیسےحکیم الامت کو اپنا پیشوا و راہنماسمجھتا ہےاوران کے روحانی فیوض و برکات کاحامل ہے،میں نے اس لئے ڈاکٹر وحید کو وحیدالعصر قرار دیاہے کہ وہ اپنے فیوض وبرکات میں یکتا ومنفرد ہیں-پروفیسر وحیدکےفیضان علمی کےگواہ چغتائی ریسرچ سنٹرکے آڈیٹوریم میں فکراقبال کی تفہیم وتشریح کے لئے دئے جانے والے وہ خطبات ہیں جن میں وہ سامعین کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے علمی مغالطے اور ذہنی اُلجھنیں منٹوں سیکنڈوں میں حل کر دیتے ہیں، میں خود بھی ان خطبات میں شامل ہوتا رہا ہوں اور یقین کےساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس دورمیں ان جیسا فکر اقبال کا شارح ہم میں موجود نہیں ہے،ڈاکٹر وحید کےخطبات صرف پاکستانی اداروں تک محدود نہیں رہےبلکہ ان کا دائرہ کار بین الاقوامی دنیاؤں کی حدود کو چھو رہا ہےاب اُنہیں تسلسل کے ساتھ یورپ،امریکہ، برطانیہ،مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر ممالک کی بڑی یونیورسٹیوں اور اداروں میں خطبات دینے کے لئے مدعو کیاجاتا ہےحالیہ دنوں میں وہ اسی سلسلے میں امریکہ میں موجود ہیں اور اس ہفتے اُنہوں نے سیاٹل میں کموڈور مصطفئ،اُن کے صاحبزادے کمال مصطفئ اور پاکستان ایسوسی سیشن کے روح رواں خالد حفیظ کے زیر اہتمام پاکستانی اہل ذوق اور ادب دوست سامعین سے اُردو زبان میں نشست کی،اگلےدن سیاٹل ہی کے ایرانی صاحبان ذوق کواقبالیات پر فارسی زبان میں خطبہ دیا، واشنگٹن یونیورسٹی کےایشیائی زبانوں اور ادب کےشعبے کی دعوت پر اساتذہ اور طلباوطالبات کے ساتھ طویل نشست کی اوراُن کےتمام سوالوں کےتسلی بخش جوابات دئے،اب یہ منفرد دانشور امریکہ کی دیگر ریاستوں میں خطبات کےلئےپا بہ رکاب ہے میں چونکہ ان دنوں سیاٹل (امریکہ) میں ہوں ڈاکٹر وحیدالزمان طارق کی ان علمی و دانشورانہ سرگرمیوں کا عینی شاہدہوں-چلئے کہانی کو پھر وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں چھوڑی تھی،ڈاکٹر وحید گوجرانوالہ کے ایک بہت چھوٹے سے گاؤں میں پیداہوئے اور عام سرکاری سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی مگر وہ جو کہا جاتا ہےکہ ہونہار برواکے چکنے چکنےپالو اُسی وقت اس کا ثبوت سامنے آگیا کہ جب اُنہوں نے میٹرک میں طلائی تمغہ اور قومی ذہانت کا وظیفہ حاصل کیا پھراس کے بعد توان کی علمی فتوحات کاسلسلہ ایساشروع ہوا کہ ایم بی بی ایس،ایف آرسی ایس کےعلاوہ پے بہ پےکئی دیگر بڑے اعزازحاصل کئےپھر مختلف شہرت یافتہ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی بلکہ یہاں تحقیق و تدریس بھی کی اور اپنےشوق وتشویق کے مطابق متوازی طور پر فارسی زبان و ادب میں تعلیمی وتحقیقی فتوحات حاصل کرتےرہے،عربی فارسی میں تو اُن کو بچپن سے درک تھااب فارسی میں ماسٹرز کرنےکےعلاوہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کرلی،طب و سائنس اور فارسی شعر و ادب دو متضاد علمی کہکشائیں تھیں مگرڈاکٹر وحید بیک وقت دونوں کہکشاؤں پر پیر رکھتے ہوئے آسمان کی بلندیوں تک پہنچ گئے اورطب کے میدان میں اوج ثریا کو چھونےکے ساتھ اقبالیات کےماہراورمفکر اقبال کا اعزاز حاصل کرلیا،میراخیال ہے کہ قدرت نےڈاکٹروحیدالزمان کے لئےیہی منصب مقررکر رکھا تھا- ڈاکٹر وحید کی تصانیف اور تحقیقی مقالات کا دائرہ بہت وسیع ہے مگر اُن کے اقبالیات پر بیش بہا تحقیقی تصانیف کے ساتھ ساتھ اُن کے فارسی اور اُردو شعری مجموعوں کا ذکر ضروری ہےکہ یہ ہمارے لئے ارمغاں کی حیثیت رکھتےہیں “زمزمۂ احوال” اُن کےاُردو کلام کا مجموعہ ہے جبکہ “اوائ دل”فارسی کا ہے یہاں ہم کہانی کو تھوڑاسا موڑ دیتے ہیں سبب اس کا یہ ہےکہ ہم ایسی شخصیت کا ذکر کرنے جا رہے ہیں جو ڈاکٹروحیدالزمان طارق کے بقول نہ صرف اُن کے استاد، راہبر اور راہنما ہیں بلکہ ڈاکٹروحیداُن ہی کے ورثہ کو لے کر آگےچل رہے ہیں-اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ شاید ڈاکٹر عرفانی کے ذکر کے بغیر وہ اپنا ذکر پسند نہ کریں کہ پکے اقبالی ہیں اور علامہ صاحب نے بھی اُس وقت تک سر کا خطاب قبول نہ کیا تھا کہ جب تک اُن کے استاد مولوی میر حسن کے لئےشمس العلماء کے خطاب کا اعلان نہ ہوا،یہاں میری مراد ڈاکٹرخواجہ عبدالحمید عرفانی ہیں جوکسی تعارف کےمحتاج نہیں ہیں، وہ ایک نابغۂ روزگار اورفارسی زبان وادب کےعالم بے بدل تھےایران کے علمی و ادبی حلقوں میں اُن کی نہایت تکریم تھی اور اُنہیں ہاتھوں ہاتھوں لیاجاتاتھابلکہ آج بھی ایران کے دانشورانہ حلقوں میں اُن کا نام بڑےاحترام کے ساتھ لیاجاتاہے- قیام پاکستان سےقبل۱۹۴۵ع میں برطانوی حکومت نے اُنہیں مشہد کونسلیٹ میں تعلیم کا رابطہ آفیسر مقررکردیاتھاجب وہ گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں لیکچرار تھے،قیام پاکستان کے بعد۱۹۴۹ع میں ڈاکٹر عرفانی سفارت خانۂ پاکستان تہران میں پہلے پریس اتاشی مقرر ہوئے اور ریٹائرمنٹ تک پھر وہیں رہے-بعد میں کافی عرصہ تک وہ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ کے پرنسپل رہے،اُن کی کتاب “ترجمہ فارسی ضربِ کلیم و شرحِ احوالِ اقبال” کادیباچہ اپنے دور کےمعروف ایرانی دانشور،استاد سعید نفیسی نےلکھا تھااور اُس میں اُنہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ایران میں علامہ اقبال کی شہرت تمام تر ڈاکٹرخواجہ عبدالحمید ہی کی مرہونِ منت ہےڈاکٹرعرفانی صاحب کےاستاد نفیسی،ڈاکٹرخطیبی ڈاکٹر منوچہر اقبال،ڈاکٹر شفق، آقائی صادق سرمد،آقائی حجازی،ڈاکٹر کاظمی اوراُس دورکےدیگرایرانی دانشوروں سے بڑے قریبی تعلق قائم تھے اور رہے،ڈاکٹرعرفانی کاعلامہ اقبال کے خاندان سے قریبی تعلق تھااور ڈاکٹر وحیدالزمان طارق عرفانی صاحب کے چہیتے ہونے کےعلاوہ قریبی عزیز بھی ہیں-خود میرے لئے یہ بات باعث فخرہےکہ میں نے ڈاکٹر عرفانی کو قریب سے دیکھا ہے اور اُن کی عالمانہ صحبت سے بھی فیض یاب ہواہومگراس کہانی کوکسی اور وقت کےلئےاُٹھا رکھتے ہیں اور پھر ڈاکٹر وحید الزمان کی طرف رجوع کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عرفانی اُن کے لئے باپ کی مانند تھے اوراُن ہی کےچھوڑےہوئے نقوش قدم پر وہ اپنا علمی سفر طے کر رہے ہیں-ڈاکٹر وحید الزمان ان اشعارکو اپنےلئےباعث افتخاراور نشان راہ قرار دیتے ہیں کہ جن میں ڈاکٹرعرفانی نے اپنا علمی ورثہ اُن کو سونپتے ہوئےاُنہیں یوں مخاطب کیا ہے
ای پسراعصاب من برهم شدست
قوت فکر و تخیل کم شدست
دل نمی میرد دگر از مرگِ تن
تو مرا دل باش ای فرزندِ من