تحریر: عبدالباسط علوی
ہندوستان مسلسل دوسرے ممالک میں جاسوسی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے اور اسکی حرکات دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ خاص طور پر اس کے پڑوسی ممالک جیسے پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور مالدیپ وغیرہ بھارت کی مداخلت کا مسلسل شکار رہے ہیں۔ دوسرے ممالک کی خودمختاری کا احترام اور ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے اجتناب ضروری ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں تعاملات کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک شامل ہوتا ہے جس کی تشکیل ہر ملک کے مختلف اقدار، مفادات اور حکومتی نظام سے ہوتی ہے۔ اس پیچیدہ منظر نامے کے اندر عدم مداخلت کا اصول مرکزی کردار ادا کرتا ہے، جس سے دوسری قوموں کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے پرہیز کی ضرورت ہوتی ہے۔
بھارت اور را پر پاکستان کے اندر دہشت گردانہ سرگرمیوں کی حمایت کرنے کا الزام بھی ہے جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ بلوچستان میں جاسوسی اور دہشت گردی میں ملوث بھارتی بحریہ کے ایک ریٹائرڈ افسر کلبھوشن یادیو کا معاملہ سب کے سامنے یے۔ یادیو کو پاکستانی سیکورٹی فورسز نے 2016 میں آئی ایس آئی کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا۔ را مبینہ طور پر پاکستان کو غیر مستحکم اور کمزور کرنے کے مقصد سے پڑوسی ممالک کے علاقوں سے بھی کام کرتی رہی ہے ۔پاکستان نے نسلی خطوط پر تقسیم کو ہوا دینے کی بھارت کی مبینہ کوششوں کا خمیازہ اٹھایا ہے اور اسے بلوچستان اور کے پی کے جیسے خطوں میں طویل بدامنی اور تنازعات کا سامنا رہا ہے۔
بھارت اور اسکی قیادت پاکستان کے خلاف میڈیا دہشت گردی میں بھی ملوث ہیں ۔ ان کی جانب سے پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کی عوام بھارتی سیاستدانوں اور بھارتی میڈیا کے بیانات کو مسترد کرتی ہے، خاص طور پر جب وہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے حالات کے درمیان مماثلت دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کے حالیہ مظاہروں کو پاکستان اور اس کی فوج کے خلاف دشمنی کے طور پر غلط بیان کیا گیا اور بھارتی سیاست دانوں اور میڈیا نے عدم اطمینان کا حوالہ دیتے ہوئے آزاد جموں و کشمیر کو بھارت کے ساتھ الحاق کا مشورہ دیا۔ ہندوستانی وزیر داخلہ امیت شاہ نے دعویٰ کیا کہ آزاد جموں و کشمیر کے باشندے پاکستان سے ناخوش ہیں، جب کہ ہندوستانی نام نہاد دانشوروں، اینکروں اور صحافیوں نے آزاد جموں و کشمیر کی ہندوستان کے ساتھ مل جانے کی تجویز پیش کی ہے۔ تاہم، آزاد جموں و کشمیر کی عوام ان بیانات کو مذاق کے طور پر دیکھتی ہے۔ حقیقت میں وہ پاکستان کی فراہم کردہ خصوصی خود مختار حیثیت اور قریبی تعلقات کو سراہتے ہوئے اس کے ساتھ مکمل اطمینان اور یگانگت کا اظہار کرتے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کا حالیہ احتجاج پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ بنیادی مطالبات پر مرکوز تھا۔ آزاد جموں و کشمیر کے باشندوں کو پاکستان کے اندر مکمل حقوق حاصل ہیں جبکہ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سیاسی جبر کے الزامات برقرار ہیں جو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے بڑھ گئے ہیں۔ بھارت کو چاہیئے کہ وہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے کشمیر اور اپنے ملک کے دیگر حصوں سے اٹھنے والی شکایات کا ازالہ کرے۔ بھارت کو یہ بھی چاہیئے ہے کہ وہ اپنے ہی علاقوں بشمول بھارتی پنجاب، کشمیر اور لداخ میں اٹھنے والی آذادی کی آوازوں پر توجہ دے۔ ہندوستانی سیاست دانوں، نام نہاد دانشوروں، اینکروں اور صحافیوں کے حالیہ بیانات کو آزاد جموں و کشمیر کے لوگوں نے مسترد کرتے ہوئے بھارتی کی طرف سے اپنے اندرونی معاملات سے چشم پوشی کرتے ہوئے ہمارے معاملات میں بلاجواز مداخلت قرار دیا ہے۔
بھارت کی بیرونِ ملک دہشت گردی سے کینیڈا بھی متاثر ہوا ہے ۔ کینیڈا اور بھارت کے درمیان حالیہ تنازعات نے بین الاقوامی توجہ مبذول کرائی ہے، خاص طور پر کینیڈا کی جانب سے برٹش کولمبیا میں ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل سے بھارتی حکومت کے ایجنٹوں کو منسلک کرنے کے معتبر الزامات کے اعلان کے بعد سے صورتحال خاصی پیچیدہ ہے۔ اس پیش رفت نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کو نمایاں طور پر کشیدہ کر دیا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ہاؤس آف کامنز کے لیے ایک ہنگامی بیان میں زور دیتے ہوئےکہا کہ کینیڈا کے شہری کے قتل میں کسی بھی غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا “ہماری خودمختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی” ہے۔ 45 سالہ ہردیپ سنگھ ننجر کو سرے میں ایک سکھ مندر کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ وینکوور کے اس مضافاتی علاقے میں کافی سکھ آبادی مقیم ہے۔ نجار ایک آزاد خالصتانی ریاست کی شکل میں سکھوں کے وطن کا حامی تھا اور جولائی 2020 میں بھارت نے اسے سرکاری طور پر “دہشت گرد” کے طور پر لیبل کیا تھا۔ ٹروڈو نے کہا کہ کینیڈین سیکیورٹی ایجنسیوں نے قابل اعتماد الزامات کی سرگرمی سے تفتیش کی ہے اور اس قتل میں ہندوستانی حکومت کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ انہوں نے نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بھی اس قتل کا معاملہ براہ راست اٹھایا تھا اور بھارتی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ مکمل تحقیقات میں کینیڈا سے تعاون کرے۔ کینیڈا نے اپنے ملک میں تعینات ہندوستان کے اعلیٰ انٹیلی جنس اہلکار کو ملک بدر کرنے کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔ یہ قابل ذکر بات ہے کہ خالصہ تحریک نے کینیڈا میں زور پکڑا ہے اور خالصہ ڈے کی تقریبات نے خالصتان تحریک کی حمایت کو مزید ہوا دی ہے۔ اس بات کو اجاگر کرنا بھی ضروری ہے کہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے سکھ کمیونٹی کی تقریبات میں فعال طور پر شرکت کرتے ہوئے سکھوں کے حقوق کے تحفظ کا عہد کیا ہے۔
پھر آتے ہیں امریکہ کی طرف۔ امریکی میڈیا اداروں کی رپورٹس کے مطابق امریکی شہری اور سکھ کارکن گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی مبینہ طور پر اس وقت کے را کے سربراہ سمنت گوئل نے منظوری دی تھی۔ امریکی میڈیا اداروں کی رپورٹس کے مطابق امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ کرائے کے قاتلوں نے را کے افسر وکرم یادیو سے رابطہ کیا۔ قتل کی ہدایات مبینہ طور پر را کی جانب سے جاری کی گئی تھیں جب نریندر مودی 23 جون کو امریکا کے دورے پر تھے۔ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق سمنت گوئل پر مبینہ طور پر بھارت سے باہر سرگرم سکھ علیحدگی پسندوں کو ختم کرنے کے لیے کافی دباؤ تھا۔ امریکی ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کو اس منصوبے کا علم تھا۔ وکرم یادیو نے مبینہ طور پر قتل کو ترجیح کے طور پر نامزد کیا اور کرائے کے قاتلوں کو گروپتونت سنگھ کا نیویارک کا پتہ فراہم کیا۔ یہ انکشاف وکرم کی شناخت اور را کے ساتھ اس کے وابستگی کی پہلی رپورٹ شدہ مثال ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق یہ تعلق براہ راست قتل کی سازش میں را کو ملوث کرتا ہے۔ را کے متعدد اعلیٰ عہدے دار، جیسا کہ موجودہ اور سابق مغربی حکام نے کہا، مبینہ طور پر اس قتل میں ملوث تھے۔ مزید برآں، امریکی ایجنسیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایسے شواہد حاصل کیے ہیں جو ملزمان اور مودی کے اندرونی حلقوں کے درمیان ممکنہ روابط کی نشاندہی کرتے ہیں۔
نومبر 2023 میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایک سکھ رہنما کے قتل کی سازش کا پردہ فاش کیا جس سے امریکی صدر جو بائیڈن کو بھارت کا ہائی پروفائل دورہ منسوخ کرنا پڑا۔ وائٹ ہاؤس نے بھی کینیڈا اور امریکہ میں قتل کی دو سازشوں میں ہندوستانی انٹیلی جنس سروس کے مبینہ ملوث ہونے پر اپنی تشویش کا اعادہ کیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ ہندوستان کی انٹیلی جنس سروس کا ایک افسر ایک امریکی شہری کو قتل کرنے کے ناکام منصوبے میں براہ راست ملوث تھا جو امریکہ میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے سب سے زیادہ بولنے والے ناقدین میں سے ایک ہے۔ یہی افسر گزشتہ جون میں کینیڈا میں ایک سکھ کارکن کی فائرنگ سے ہلاکت میں بھی مبینہ طور پر ملوث تھا۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کرائن جین پیئر نے معاملے کی سنگینی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور خدشات کا اظہار کرتے رہیں گے۔
پھر آسٹریلیا سے بھی خبریں آئی تھیں کہ را کے چند ایجنٹوں کو ملک سے نکال دیا گیا تھا۔ مزید برآں، چند ماہ قبل، قطر کی ایک عدالت نے ہندوستانی بحریہ کے آٹھ سابق اہلکاروں کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں موت کی سزا سنائی تھی۔ سزا پانے والوں میں کیپٹن نوتیج سنگھ گل، کیپٹن بیریندر کمار ورما، کیپٹن سوربھ وشیشت، کمانڈر امیت ناگپال، کمانڈر پورنیندو تیواری، کمانڈر سوگناکر پاکالا، کمانڈر سنجیو گپتا اور سیلر راجیش شامل تھے۔ یہ سابق بحری اہلکار عمان ایئر فورس کے ایک سابق افسر کی ملکیت والی نجی کمپنی الدہرہ گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ کنسلٹنسی سروسز میں ملازم تھے۔ اس کمپنی کو قطر کی مسلح افواج اور سیکیورٹی اداروں کو تربیت اور مختلف خدمات فراہم کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کی حرکات اسکو بین الاقوامی سطح پر شرمندگی اور تنہائی میں اضافے کی طرف لے جا رہی ہے۔ وزیر اعظم مودی کی قیادت میں ہندوستان ایسے اقدامات کرتا رہتا ہے جو اس کی عالمی ساکھ کو مزید داغدار کرتے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت کی رسوائی میں اضافہ کرتے ہیں۔
دنیا کو دوسرے ممالک میں دہشت گردی کو فروغ دینے اور اس کی حمایت میں بھارت کے بدنیتی پر مبنی کردار کا جائزہ لینا چاہیے اور بھارت کو دہشت گرد ریاست قرار دینے پر غور کرنا چاہیے۔ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے بھارت جیسے بین الاقوامی دہشت گرد ملک کو سبق سکھانا ضروری ہے۔