تحریر: خالد غارغشتی
عموماً دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب ہم کسی کو سمجھا رہے ہوتے ہیں تو پسِ پردہ اُس کی اصلاح سے زیادہ اس کی تَذلیل کر رہے ہوتے ہیں ، کیوں کہ سب کے سامنے طنز کرکے ہم اس کی عزتِ نفس کو مجروح کرتے ہیں ۔یہ کس قدر بدبختی اور کم ظرفی ہے کہ ہم دوسروں کو نَصیحت کرتے ہوئے بھی باتوں ہی باتوں میں سامنے والے کی ذات پر اس قدر طَنز و تَنقید کے نشتر چلاتے ہیں کہ اس کا دل و کَلیجہ دونوں چیر کر رکھ ہیں ۔ ہر عمل کا رَدِ عمل ضرور ہوتا ہے ، جب ہم دوسروں کی توقیر نہیں کرتے تو ہمیں بھی حقارت بھرے رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
وعظ و نصیحت کے سلسلے میں یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ جو بات انسان دوسروں کے لیے متعین کرے ، وہ پہلے خود بھی اس پر عمل کرے ، دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت کا فارمولہ کبھی موثر نہیں ہوتا، یہ طریقہ دیر پا نہیں رہ سکتا ۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے ، آج سوشل میڈیا کے ذریعے کروڑوں افراد وعظ و نصیحت کرتے ہیں ، اقوالِ زریں بیان کرتے ہیں ، ہمارے ملک میں سینکڑوں مذہبی جماعتیں ہیں ، جن کے ماتحت لاکھوں مساجد و مدارس کام کر رہے ہیں لیکن معاشرہ مسلسل تنزلی کی جانب کیوں گامزن ہیں ؟ وہ بے حیائی و بربادی جس کا آج سے کچھ عرصہ پہلے تصور کرنا بھی محال لگتا تھا ، آج جگہ جگہ کیوں برپا ہے ؟ پہلے کے افراد میں اتنی تعلیم و شعور نہ ہونے کے باوجود بھی ہمارے خطے میں چادر و چاردیواری کی حرمت کس قدر پختہ تھی ، مساجد و مدارس خال خال اور کچے مگر ایمان پختہ تھے ۔ آج لاکھوں عصری و دینی اداروں اور ان کی عالی شان عمارتوں کے باوجود ہمارا سماج تباہی کے آخری دہانے پر کیسے پہنچ گیا ؟
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں کو اگر دو لفظ بھی نیکی کے معلوم ہوتے تھے ، وہ اس پر سختی سے کاربند تھے ، ان کو زبان سے اپنے افعال و کردار کی گواہی دینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ۔ ان کا ایک ایک عمل خود بولتا تھا ۔ وہ سراپاِ کردار تھے ۔ آج ہم چِیخ چِیخ کر اپنا سُتھرا کردار پیش کرنے کی کوشش ہیں ، وعظ و نصیحت کرتے ہیں لیکن وعظ وہ قوم کی پختہ خیالی کیوں نہ رہی ، برق طبع کیوں نہ رہی ، شعلہ مقالی کیوں نہ رہی ، رہ گئی رسم اذاں ، روح بلالی کیوں نہ رہی ، فلسفہ رہ گیا ، تلقین غزالی کیوں نہ رہی ؟ آخر چلاّ چلاّ کر ہمیں اپنا کردار کیوں ثابت کرنا پڑتا ہے ؟ ہمارا عمل کیوں نہیں بولتا کہ ہم مسلمان ہیں، ہمیں دیکھ کر آج یہود بھی کیوں شرماتے ہیں؟
ہمارے عصری اداروں میں اکثر اساتذہ بچوں کو نصحیتوں سے نوازتے رہتے ہیں کہ بچوں گالم گلوچ نہ کرو ، اسکول دیر سے نہ آیا کرو ، لڑنا جھگڑنا ، نا انصافی کرنا، جھوٹ ، غِیبت ، چُغلی اور کام چُوری کرنا بری خَصلتیں ہیں ، جوں ہی اگلا دن آتا ہے ، استاذ اپنے اقوال کے خلاف وہی کام خود کر رہا ہوتا ہے ، کلاس میں دیر سے پہنچتا ہے ، سمجھانے کی بجائے کام چوری کرتے ہوئے بچوں سے کہتا ہے ، گائیڈ سے لکھ لو ، آج کا سبق ہے ۔ ہر دوسری بات پہ مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے بچوں کے سامنے جھوٹ بولتا ہے ، بچے تو بچے ہوتے ہیں جب وہ شرارت کرتے ہیں تو نہ صرف اُنھیں خوب مارتا ہے بل کہ انھیں ماں ، بہن کی اتنی غلیظ گالیاں دیتا ہے کہ کمرے کی دیواریں بھی لرّز جاتی ہیں ۔ بسا اوقات تو راہ چلتے لوگ بھی سُن کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں ۔
پہلے کے ہمارے بزرگ کس قدر صاحبِ بصیرت تھے ، ان کے پاس نصیحت کے لیے الفاظ نہ تھے مگر ان کا عمل سب کے لیے ہدایت کا سامنا بن جایا کرتا تھا ۔
آج یوٹیوب پر بیٹھا ہر دوسرا شخص نیکی و بدی ، حلال و حرام کے فلسفے جھاڑ رہا ہے یا دین پر مباحثے کرواتا ہے ، قربِ قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا: آخری دور میں میری امت میں قیل و قال عام ہوجائے گا لیکن عَملوں پر تالے پڑجائیں گے ، کیا آپ جگہ جگہ دینی معاملات پر بحث و مناظرے نہیں دیکھ رہے ؟ کیا اس کے باوجود بھی ہم مُسلسل بے عملی کی آخری حدود کو نہیں چُھو رہے؟
عمل سے زندگی بنتی ہے ، جنت بھی جہنم بھی ، اگر عمل درست نہیں تو سب کچھ رائیگاں ہے ۔ اپنے اعمال کو صراطِ مُستقیم کی طرف لانے کی کوشش کیجیے ۔ یہی وُہ راستہ جس میں نِجات چُھپی ہوئی ہے ۔