تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق
میں نے جن شعرائے کرام کے کلام میں بھرپور انداز میں سوزوگداز اور عجز و انکساری محسوس کی ہے ان میں سے ایک نام سید غلام معین الدین المعروف بڑے لالہ جی پیر صاحب گولڑہ شریف مولف اسرار المشتاق بھی ہیں۔ مجھ جیسا پورا سورا شخص بھی ان کے کلام کے اثر کی بدولت آبدیدہ ہو جاتا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اپنی زندگی میں اپنے آپ کو ایک شاعر کے طور پر متعارف نہیں کروایا ۔ شاید وہ بس ایک عام انسان کی طرح زندگی بسر کرنا چاہتے ہوں گے اور واہ واہ کروانے کو اپنے لئے نقصان دہ سمجھتے ہونگے۔ اس واہ واہ نے ویسے بڑے بڑے لوگوں کو کوراہے ڈالا ہے۔ بنیادی طور پر تو شاعری کام ہے آتش مرصع ساز کا۔ جو بات آپ ایک لمبے چوڑے مضمون میں بیان کرتے ہیں وہی بات ایک شعر میں سمیٹ کر بیان کی جا سکتی ہے۔ آپ 1920میں گولڑہ شریف میں پیدا ہوئے اور 1997 میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کا سالانہ عرس ہر سال 3ذیقعد کو گولڑہ شریف میں منایا جاتا ہے۔ آپ پیر مہر علی شاہ رح کے پوتے، پیر سید غلام محی الدین المعروف بابو جی رح کے بڑے بیٹے اور پیرسید غلام نصیر الدین نصیر کے والد گرامی تھے۔ بہر حال ان کا اپنا ایک حوالہ ہے اور میرے نزدیک وہ بہت بڑا معتبر حوالہ ہے۔پیری کو خدمت خلق سمجھتے تھے اور لوگوں کے سامنے انہوں نے اس بات کی عملی شکل پیش کی۔ سرکارے دربارے یا کسی بھی دنیاوی محفل، تقریب یا جلسے میں شرکت سے مکمل پرہیز کرتے تھے۔ باکمال شاعر تھے لیکن انہوں نے کبھی کسی مشاعرے میں جا کر داد وصول نہیں کی ۔ اوراد ووظائف باقاعدگی سے کرتے تھے۔ پابند صوم وصلوہ بلکہ ریاضت، مجاہدہ اور مراقبہ ان کے شب و روز کا معمول تھا۔ ان کے چہرے پر سنجیدگی اور متانت ہمہ وقت دیکھی جا سکتی تھی۔ وہ نمود و نمائش سے مکمل احتراز فرماتے تھے۔ وہ شاعری اپنی طبیعت اور مزاج کے مطابق کرتے اور مشتاق تخلص کرتے تھے۔ وہ انسان کو اپنے خالق کا مشتاق بنانے کے خواہاں تھے اور اس کے لئے مسلسل تگ و دو کرتے تھے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کرنا اور شریعت پر کاربند رہنا ان کی پوری زندگی کا شعار تھا۔ انکا زیادہ وقت عبادت اور درگاہ کے نظم ونسق کو چلانے میں بسر ہوتا تھا۔ ان کے ہاں شریعت کی پاسداری کا یہ عالم تھا ان کی تصویر اتارنا ناممکن تھا۔ عاجزی کا یہ عالم تھا کہ کوئی ان کے سامنے ان کے لئے تعریفی و توصیفی کلمات نوک زبان پر نہیں لا سکتا تھا۔ وہ معاملات میں مشاورت کے اصولوں کی مکمل پاسداری کرتے تھے اور اپنے چھوٹے بھائی پیر سید شاہ عبد الحق گیلانی رح کو اپنا سب سے بڑا مشیر سمجھتے تھے۔ انہوں نے روحانیت کے سلسلے کے تسلسل کو آگے بڑھانے کے لئے بھی حتی المقدور کوشش کی اور اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوئے۔ یہ وہ ان کی صفات ھیں جو مجھے عقلی اور منطقی لحاظ سے یہ بات کہنے پر باور کرواتی ہیں کہ ان کا اپنا ایک معتبر حوالہ ہے(لازم ہے زمانے پہ کرے قدر ہماری۔۔ہم لوگ قمر لوٹ کر آیا نہیں کرتے) ان کے سالانہ عرس کی تقریب میں شرکت کی۔ قوالوں نے ان کاکلام پیش کیا۔ جس کو سن کر ہر آنکھ نم ہورہی تھی اور خواص بے خودی کی کیفیت میں گم ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ غنائیت، للہیت، عجز، محبت، وارفتگی، آشفتگی،فصاحت و بلاغت اور گہرائی و گیرائی کے پہلو ان کے اشعار میں نمایاں تھے۔ محفل میں صوفیانہ رنگ پوری طرح غالب تھا۔ ہر شخص ادب آداب کا پوری طرح مظاہرہ کررہا تھا۔ ان کے فرزند ارجمند پیر سید غلام حسام الدین حسام گیلانی اپنے دیگر عزیز واقارب سید غلام نظام الدین جامی، مہر محی الدین رومی اور پیر غلام شمس الدین شمس کے ہمراہ محفل میں موجود تھے اور شرکاء سے صوفیاء کی تعلیمات کے مطابق مصافحہ کررہے تھے۔ متذکرہ بالا ساری چیزوں کو اکٹھا کیا جائے تو اس سارے عمل کا حاصل تصوف ہے۔ قوالی بھی بنیادی طور پر انسان کو ایک نقطے پر یکسو کرنے کا ذریعہ بنتی ہے اور ویسے بھی صوفی شعراء کے مطابق “گل اک نقطے تے مکدی اے”۔ ویسے نقطہ آفرینی شاعری اور ابلاغ کے لئے ضروری ہے۔ صوفی لوگ کوئی لمبی چوڑی شاعری نہیں کرتے تھے۔ اپنی طبیعت کے مطابق اشعار کہتے تھے اور ہر شعر ضرب المثل ہو جاتا تھا۔ کہنے کو تو نعتیں سب نے کہی ہیں لیکن پیر مہر علیشاہ کی نعت اج سک متراندی ودھیری اے سبحان اللہ ما اجملک ما احسنک اور پھر کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا کہہ کر آپ نے پنجابی زبان میں نعت جیسی صنف سخن کو معراج پر پہنچا دیا۔ یہ انہیں کا کام تھا۔ “جس کا کام اسی کو ساجھے”
محترم انوار چشتی اور کامران منظور کی وساطت سے پیر مہر علی شاہ رح کی لائبریری دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ نایاب کتب کا ذخیرہ۔ کتاب انسان کی بہترین ساتھی ہے اور جس کسی نے اپنے آپ کو کتاب کے ساتھ جوڑ لیا اور اپنے من کے پودے کو وحدانیت کے پانی سے سیراب کیا۔ ان کے سامنے علامہ اقبال جیسے لوگ کاسہ رہنمائی پھیلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ایسی ہی ہستیاں اپنے ذکر اور فکر کی سیف سے باطل قوتوں کا جھٹ میں قلع قمع کردیتی ہیں۔ کاش مروجہ پیری مریدی سے ہٹ کر بزرگان دین اور ان کی تعلیمات کو دیکھا جاتا تو مجموعی طور پر متلاشیان راہ حق صراط مستقیم پر چلتے ہوئے واصل بالحق ہو جاتے۔ بہرحال طالب کے لئے مطلوب ہوتا ہے۔ ہدایت کی تلاش کے لئے گھر سے تو نکلنا پڑتا ہے۔ رحمت خداوندی کے لئے عرش والے کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ دل اور دماغ کو یکسو کر کے مطلوب و مقصود کو مثل پتلی آنکھوں میں بسانا پڑتا ہے۔ پیر سید غلام قطب الحق شاہ اور ان کے فرزند ارجمند سید علی جنید الحق سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اول الذکر کے چہرے کی خوشگواریت نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا ہے۔علی جنید الحق ابھرتے ہوئے عالم فاضل اور محقق دکھائی دیئے۔ وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کررہے ہیں۔ ان کا فکری کینوس مجھے بتدریج وسیع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔حرام کے لقمے کے مضر اثرات پر انہوں نے سیر حاصل گفتگو کی۔ کاش یہ بات ہم سب کی سمجھ میں آ جائے۔ یقیننا روح اور بت کا جھگڑا ختم کرنے کا واحد حل حلال اور حرام میں تمیز کرنا ہے۔ اوراگر یہ فرق کرنے کا گر، ڈھنگ اور طریقہ آجائے تو زیادہ باتیں کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ہے۔ انسان مستغرق الی الحق ہو جاتا ہے اور دیکھنے والے کو نظر سے درست سمت دیکھنے کا ڈھنگ سکھا دیا جاتا ہے۔ کوئی لمبے چوڑے مضمون نہیں۔ شور شرابے ختم۔ نعرے شعرے چپ کے روزوں میں بدل جاتے ہیں اور بس دیکھنے والوں کی دیکھ کر تقدیر بدل دی جاتی ہے۔ علی جنید الحق کی گفتگو میں تصوف کی اصل روح کی جھلک نمایاں تھی۔ وہ غیر ضروری بحث تمحیص کا راستہ بند کرنے کے حق میں ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ مشائخ عظام اور علمائے کرام کو غیر ضروری موضوعات پر اپنی توانائیاں ضائع نہیں کرنی چاہیئیں اور قوم کو فرقہ پرستی کی دلدل سے نکال کر قرآن و سنت پر اکٹھا کرنے کے لئے پوری کوشش کرنا چاہیئے۔ نفی اثبات کی تعلیمات کا پودا ہر دل ودماغ میں لگانا ہوگا۔ باطنی استعداد بڑھائے بغیر تصوف محض گپ شپ ہے اور گفتار کے غازی اور کردار کے غازی کی منزل ایک نہیں ہو سکتی۔
بلاشک و شبہ عصر حاضر میں وارثان بزرگان دین کو پاوں پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ غیر ضروری بحثوں سے ہم سب کو بچنے کی ضرورت ہے۔ زندگی قرآن و احادیث کی تعلیمات کے مطابق گزارنے کی اشد ضرورت ہے۔ فرقہ بندی کے جمگھٹوں سے نکل کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ تعلی شاعری کا وصف ضرور ہے لیکن دین کی تشریح وتوضیح کے لئے مناسب اور موزوں اظہار کی ضرورت ہے۔ خانقاہی نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ پیر اور مرید کے تعلق کو روحانیت کے بنیادی فلسفے کے پیش نظر از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ پیر مہر علی شاہ رح جیسے صاحب شریعت بزرگان دین کے تعلیمات کو پبلک کرنے کی ضرورت ہے۔ ان درگاہوں پر قائم مدارس میں مروجہ نصاب تعلیم پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ درگاہوں پر قوالی کرنے والے قوالوں کو حاجی محبوب قوال کے فن قوالی سے روشناس کروانے کی ضرورت ہے۔ یہ سارے کام اگر ہم سب مل کر کر لیں تو آج بھی ان درگاہوں سے رومی اور غزالی جنم لے سکتے ہیں اور آج بھی عرفان الہی جیسی متاع بے بہا ہم حاصل کر کے اللہ ھواللہ ھو کی فکر جہان ارض وسما میں عام کرسکتے ہیں۔ پیر اور مرید دونوں کو اس سلسلے میں گہرے سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ذوق شوق پیدا کرنے کے لئے ذرا سنیں اور اپنی نفی کرکے خدائے لم یزل کا اثبات کریں
دل بے مدعا ہے میں نہیں ہوں
کوئی دم کی ہوا ہے میں نہیں ہوں
دل مشتاق تیرا کیا بھروسہ
ترا حافظ خدا ہے میں نہیں ہوں