رہنما دیتے رہے تابندہ منزل کی نوید

تحریر: ناصف اعوان

اس وقت وطن عزیز کے لوگوں کی حالت انتہائی تکلیف دہ دکھائی دیتی ہے اگرچہ وہ اپنی حالت بہتر بنانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں مگر حکمران طبقہ ان پر ایک نیا اور بھاری بوجھ لاد دیتا ہے یعنی وہ ایک مسئلے سے جان چھڑانے کی سوچتے ہیں یا اس سے نجات حاصل کرتے ہیں تو انہیں اور طرح کے مسائل سے دوچار کر دیا جاتا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل اقتدار و اختیار نے یہ طے کر لیا ہے کہ عوام کو سہولتیں نہیں فراہم کرنا وہ الجھے رہیں بکھرے رہیں آہیں بھرتے رہیں اور دہائی دیتے رہیں انہیں سُکھ کا سانس نہیں لینے دینا تاکہ انہیں تسکین ملتی رہے لہذا وہ آسائشوں کو سلب کرتے رہتے ہیں اور جب وہ احتجاج کرتے ہیں تو ان کو طرح طرح کی جکڑ بندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ آئین و قانون انہیں پر امن احتجاج کا حق دیتا ہے مگر اس حوالے سے وہ کوئی بات نہیں کرتے منہ میں گھنگھنیاں ڈال لیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حکمران عوام کو تکالیف دینے کے لئے آتے ہیں ایسا نہیں ہوتا عوام انہیں جب اقتدار سونپتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ جس قدر بھی ہو ان کی مشکلات کو کم کریں وہ ایسی قانون سازی کریں جو انہیں راحت وآرام پہنچاتی ہو انہیں آگے بڑھنے کی طاقت دیتی ہو ملکی تعمیر و ترقی میں ایک کردار ادا کرنے کی تحریک و ترغیب دیتی ہو مگر ہمارے حکمران اس کے برعکس کرتے ہیں ۔
اس کی وجہ ہمارے دوست جاوید خیالوی یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے کرتا دھرتا زیادہ تر واشنگٹن کی آشیر باد سے حکمران بنتے ہیں یہ ہماری تاریخ ہے اس سے انحراف ممکن نہیں پھر یہ بات جو ہم اکثر عرض کرتے رہتے ہیں کہ ہماری نجی زندگیوں اور ملکی معاملات میں آئی ایم ایف کو بڑا عمل دخل ہے وہ ایسے کہ وہی یہ طے کرتا ہے کہ فلاں شعبے میں کتنی پیش رفت ہونی ہےملازمین کی تنخواہیں بڑھانا ہے یا نہیں صنعت کو فروغ دینا ہے یا نہیں اگر دینا ہے تو کس قدر تیل گیس کی درآمد بارے بھی وہی ہدایات دیتا ہے اگر نہیں بھی کرتا تو اس کی پشت پر کھڑے ممالک جن میں امریکا سر فہرست ہے ”حکم“ دے ڈالتاہےکہ یہ نہیں کرنا وہ نہیں کرنا اور حکمران اس پر من و عن عمل کرتے ہیں یہ ان کی مجبوری بھی ہوتی ہے کیونکہ انہیں ملک چلانے کے لئے قرضے لینا ہوتے ہیں لہذا وہ اِدھر اُدھر نہیں دیکھتے سیدھے چلتے ہیں ۔
ہمیں جاوید خیالوی کی اس بات سے اتفاق بالکل نہیں کہ وہ مجبور ہوتے ہیں لہذا وہ اِدھر اُدھر نہیں دیکھتے سیدھے چلتے ہیں حکمرانوں کے ساتھ جب عوام ہوں اور وہ نعرہ مستانہ بلند کرنے کا کہہ رہے ہوں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ مشکل سے مشکل وقت کے لئے تیار ہیں ان میں مقابلہ کرنے کی ہمت و سکت ہے لہذا کسی بھی آشیربادی کے آگے سر نہ جھکایا جائے مگر حکمران تب بھی ایسا نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے ایسی غلطیاں کی ہوتی ہیں جو ریکارڈ پر ہوتی ہیں ان کی دولت ان کی جائیدادیں جہاں جہاں جن جن ممالک میں ہوتی ہیں اس کا حساب کتاب ان کے پاس محفوظ ہوتا ہے یاد رہے یہ جائیدادیں وہ ناجائز ذرائع سے بناتے ہیں اپنے اختیارات کو استعمال کرکے ارب کھرب پتی بن جاتے ہیں لہذا وہ عوام کی کسی تکلیف پر آنسو نہیں بہاتے انہیں اپنے مہربانوں کا پاس رکھنا ہوتا ہے وہ اس میں ذرا بھر کوتاہی یا لاپروائی نہیں برتتے ایسے حکمران کیسے عوام دوست ہو سکتے ہیں اسی لئے ملک عزیز میں افراتفری شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہے لوگوں میں غم و غصہ انتہا کو پہنچا ہوا نظر آتا ہے۔
انہیں بجلی گیس پٹرول اور یگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے نے اعصابی مریض بنا دیا ہےوہ تعلیم صحت اور انصاف کی سہولتوں سے محروم ہیں غریبوں کے بچوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول ناممکن ہو چکا ہے اہم عہدوں پر ان کے بچے متمکن نہیں ہو سکتے۔ ہر حکومت کے وزیر مشیر اپنوں کو یہ عہدے بانٹ دیتے ہیں تاکہ کل وہ ان کی ”حرکتوں “ کو چھپانے میں مدد گار بن سکیں ان پر قانونی طور سے مٹی ڈال سکیں۔ ہر پاکستانی یہ پوچھتا ہے کہ کیا اسی مقصد کے لئے ملک بنا تھاکہ جس میں ستم ڈھائے جاتے ہوں میرٹ کو پامال کیا جاتا ہو اور انصاف طاقتور ہی کو ملتا ہو ؟ نہیں‘ پاکستان اس مقصد کے لئے ہر گز نہیں بنا تھا مگر چند گھرانوں اور چند بڑے طاقتوروں کی نیت میں فتور آگیا وہ طمع و لالچ کی دلدل میں دھنس گئے انہیں اختیارات نے اندھا کر دیا وہ انسانوں کو انسان سمجھںے کے بجائے کیڑے مکوڑے سمجھنے لگے لہذا آج وہ بے بس ہیں آزردہ خاطر ہیں ان کے خواب بکھر چکے ہیں بد حالی نے ان کے اوپر ایک انجانا خوف مسلط کر دیا ہے اس کے باوجود ہمارے بڑے عوام کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھ رہے اور ناروا و ناخوشگوار فیصلے کرتے چلے جا رہے ہیں یعنی عوام کے وجود کو تسلیم نہیں کر رہے آخر کب تک یہ چلے گا ہمیں ہوش کے ناخن لینا ہوں گے کبھی دنیا میں کوئی ایسا حکمران ہوا ہے کہ وہ تخت سے مرا ہوا اتارا گیا ہو اسے زندہ ہی اتارا گیا اور پھر وہ گمنامیوں کی گہری کھائی میں گر گیا مگر کچھ لوگ لمحہء موجود کو لمحہء ہمیش سمجھ لیتے ہیں جب کہ کوئی بھی لمحہ مجسم نہیں ہوتا وہ ٹھہرتا نہیں رکتا نہیں آگے کی طرف بڑھتا ہےاور تبدیل ہوتا جاتا ہے لہذا ہمارے حکمران وقتی خوشی ومسرت کی خاطر غریب عوام کا گھیراؤ نہ کریں وہ بہرحال انسان ہیں ان کی بھی ایک آس ہے جو وہ ستتر برس سے لگائے ہوئے ہیں کہ انہیں ایک ایسا نظام حیات میسر ہو جو ان کو مصائب سے نہیں راحتوں سے آشنا کروائے لہذا یہ جو آئے روز پابندیاں اور رگڑ بندیاں ہو رہی ہیں ان سے اجتناب برتا جائےعوام کو جینے کا حق دیا جائے ان کے مینڈیٹ کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے انہیں بیوقوف سمجھنا اور خود کو عقل کل‘ یہ محض خوش فہمی ہے ووٹروں میں بڑے بڑے دماغ ہوتے ہیں جو اپنا نمائندہ منتخب کرتے ہیں اور اجتماعی دانش اس کے حوالے کر دیتے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے بہتر سے بہتر فیصلے کر سکے یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی وہ بک بھی جاتا ہے مال بھی بنالیتا ہے اور خود کو پوتر بھی کہتا ہے جبکہ اب عوام ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں کہ جس میں عوام سے اب کچھ ڈھکا چھپا نہیں بہرحال انہیں احمق تصور کرنا اور یہ خیال کرنا کہ وہ سرکاری بیانات ہی کو سچ مان لیں گے درست نہیں انہیں صرف اور صرف انصاف دے کر مہنگائی بے روزگاری ختم کرکے ہی کوئی اپنا گرویدہ بنا سکتا ہے تعلیم اور صحت کی مفت سہولتیں دے کر ہی ان کے دل میں گھر بنایا جاسکتا ہے جذباتی باتیں اور جذباتی تحریریں ان کو متاثر نہیں کر سکتیں لہذا ضروری ہے کہ عوام کو اپنے قریب کر نے کے لئے اس اذیت ناک نظام کو تبدیل کر دیا جائے نہیں تو وہ خود اسے بدل ڈالیں گے یہ حقیقت ہے کوئی اسے مانے یا نہ مانے ؟آخر میں مشتاق احمد کا یہ شعر
رہنما دیتے رہے تابندہ منزل کی نوید
کارواں کے ساتھ لیکن تیرگی چلتی رہی

Comments (0)
Add Comment