تحریر : خالد غورغشتی
ہماری قوم بوسیدہ چیزوں کو اس وقت تک استعمال کرتی رہتی ہے کہ جب تک وہ ٹوٹ پھوٹ کر بل کہ جگہ جگہ سے پھٹ کر کہ نہ دے ” ہونڑں ساڈا پِچھا چھڈ وی دیسو کہ ساڈیاں لیراں لیراں کرسو ۔ “
ایک دور تک جب نئی نئی سائیکل متعارف ہوئی تو لوگ اس سے خوب لطف لیتے تھے اللہ بھلا کر بے سہاروں کا سہارا سائیں ابرار الحق کا وہ کیا خوب صورت گیت کہہ گئے ” آجا تے بیہ جا ، سائیکل تے ۔ “
پھر موٹر سائیکل متعارف ہوا تو اس نے لوگوں کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے، گویا پریمی جوڑوں کی چاندنی ہوگئی ۔ عاشقوں نے خوب اس سواری سے لُطف بڑھایا ، ان دنوں ہندوستانی فلموں کا بھی نیا نیا دور تھا اور موٹر سائیکل کا بھی ۔ کہیں عاشق موٹر سائیکل پہ سوار لاہور کی گلیوں میں گھوم رہے ہوتے ، کہیں کراچی کے تنگ راہوں پر یہ گیت گنگتاتے جا رہے ہوتے تھے ، تیرے نام ہم نے کیا ہے، جیون اپنا سارا صنم ، کہیں تیری چاہت میں دنیا بھلا دوں گا، تو کہیں دشمن زمانہ ہمیں نہ بھلانا میں خود کو مٹا دوں گا، کہیں پردیسی پردیسی جانا نہیں، ہمیں چھوڑ کر ، پردیسی میرے یارا وعدہ نبھانا ، ہمیں چھوڑ کے نہ جانا پردیسی پردیسی جانا نہیں! چل رہا ہوتا تھا . عجب دیوانگی ، کیا مستی تھی ۔ جو تاحال نئے رنگ میں پرانے جوبن کے ساتھ جاری ہے ۔
پچھلے دنوں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی ، ان کے پاس پچیس برس قبل کی موٹر سائیکل تھی ، میں نے پوچھا یہ کیسی چل رہی ہے ؟ کہنے لگا بہت بہتر ۔ میں نے استفسار کیا نئی کیوں نہیں لیتے جناب؟ کہنے لگا: “بھئی پرانا ماڈل ہے ایسا پھر نہیں ملتا ۔ ” میں نے پھر سوال کیا کہ خفا نہیں ہونا اس پہ کتنا خرچا ہو چکا ہے ، کہنے لگے: ” اس کی قیمت سے چار گُنا ” میں نے کہا پھر آپ اس کو بیچ کر نیا کیوں نہیں خریدتے ہیں ، اس کا ایک ایک پرزہ ڈھیلا ہو چکا ، ہر ہفتے ہزار پندرہ سو کا خرچہ کرتے ہو ، تب جا کے بلو کے گھر پہنچتے ہو۔ وہ کہنے لگا: ” اب لگتا ہے نیا ہی لینا پڑے گا۔ ” وہ شخص مجھے کچھ سمجھ دار لگا، اگلے ہی ہفتے اس نے نیا موٹر سائیکل خرید لیا ۔ یوں اس کی روز روز کے خرچوں اور الجھنوں سے جان چھوٹی۔ اب وہ بلو رانی اور بلونگڑوں کے ساتھ ان کے ننھیال با آسانی پہنچ جاتا ہے ۔
ہماری سوچ اس قدر بوسیدہ ہے کہ ہماری مثال کنویں کے مینڈک سے دی جاتی ہے ۔ ہم نے بڑوں سے جو بات سُنی اس کو عقیدہ اور مذہب بنا لیا ، توہم پرستی ، جہالت اور تعویز گنڈے کا کاروبارو نسل در نسل آج سوشل میڈیا کے دور میں بھی ہمارے ہاں عروج پر ہے ۔
وہ بزرگ جنھوں نے ساری عمر دین کی تبلیغ و اشاعت اور جہاد میں گزاری ، ہم نے ان کی تعلیمات و کارناموں کو عام کرنے کی بجائے ان کی نسبت ایسی ایسی من گھڑت کرامات منسوب کی ہیں کہ لوگوں نے عقیدت سے مزار پرستی شروع کردی ۔ بزرگوں کے روحانی فیوضات کی جگہ مجاوروں نے مزارات پر ایسی ایسی خرافات کو عام کیا کہ ہندوؤں کی رسومات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح بزرگ قرآن اور اہل بیت کی نوکری کر گئے ہم بھی ان کے نقشِ قدم پر چل کر زندگیوں میں تبدیلی لاتے ، مگر ہم نے ان کی نسبت ایسی ایسی کرامات اور خرافات پھیلانا شروع کردیں کہ بزرگوں کی شخصیت و کردار سے زیادہ ان کی نسبت جھوٹے قصے کہانیاں مقبول ہونے لگے ۔ ہر علاقے کا کوئی نہ کوئی جھوٹا قصہ یا کہانی ضرور مشہور ہوتا ہے ۔ ہمارے علاقے میں بھی مشہور ہے کہ ہمارے بزرگ دیواروں پہ دوڑنے کی بجائے دیواروں کو دوڑاتے تھے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ دوڑنے پہ آئیں تو دیواریں بھی دوڑ پڑیں اور رکنے پہ آئیں تو زندہ بھی دیوار پہ نہ دوڑ سکیں ۔ ہم مانتے ہیں کہ بزرگوں کی کرامات برحق ہیں لیکن اتنا بھی مبالغہ آرائی درست نہیں جتنا ہم بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں ۔
اسی طرح ہم نے ملکی مفاد کی خاطر تو کوئی جنگ نہیں لڑی لیکن پیٹ کی خاطر مسلکی جنگیں لڑ لڑ کر اپنا اور اپنے مذہب کا ستیاناس کردیا ۔