ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس آج صبح وزیراعظم ہاؤس میں ہوگا جس میں آزاد کشمیر حکومت، وزارت داخلہ کے نما ئندے اور دیگر اہم حکام شریک ہوں گے۔ اس کےعلاوہ اجلاس میں وفاقی وزیرکشمیر امور امیرمقام، وزیر توانائی، وزیر فوڈ سیکیورٹی بھی شرکت کریں گے۔
اجلاس کے دوران آزاد کشمیر کے معاملے پر وزیراعظم کو بریفنگ دی جائےگی، ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اجلاس میں آزاد کشمیر کی صورتحال سے متعلق اہم فیصلے متوقع ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے پیغام میں آزاد کشمیر کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔
مذاکرات ناکام
دوسری جانب آزاد کشمیر حکومت کے متحدہ ایکشن کمیٹی کے ساتھ راولاکوٹ میں ہونے والے مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔ چئیر مین متحدہ ایکشن کمیٹی شوکت نوز میر کا کہنا ہے کہ ہمارے 3 مطالبات ہیں سستا آٹا، بجلی میں مکمل ریلیف دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا تیسرا مطالبہ اشرافیہ سے مرعات کی واپسی ہے،جب تک یہ تینوں مطالبات حکومت منظور نہیں کرتی ہڑتال جاری رہے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت مطالبات کو منظور کرکے نوٹیفیکیشن جاری کرے، ہمارا احتجاج پُرامن ہے اسے سبوتاز ہرگز نہیں ہونے دیا جائےگا۔
مزاکرات ناکام ہونے کے بعد راولاکوٹ اور دیگر مقامات سے قافلے مظفرآباد کی جانب رواں دواں ہے۔
آزاد کشمیر میں لانگ مارچ کے شرکا راولا کوٹ پہنچ گئے
آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر لانگ مارچ کے شرکا راولاکوٹ پہنچ گئے ہیں، مارچ کے شرکا مظفرآباد کی طرف جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
ضلع میں آج بھی تعلیمی ادارے اور ضلعی دفاتر بھی آج بند رکھے جائیں گے، پونچھ، باغ اور جہلم ویلی سمیت پوری وادی کشمیر میں مسلسل چار روز سے معمولات زندگی مفلوج ہے، کھانے پینے کی اشیا کی قلت پیدا ہوگئی۔
میڈیکل اسٹورز بھی بند ہیں، مریضوں اور ان کے لواحقین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، آزادکشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ مزیددو روز بندکرنےکا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پس منظر
واضح رہے کہ گزشتہ روز آزاد کشمیر میں سستی بجلی اور سستے آٹے کی فراہمی کے لیے جاری احتجاج اور ہڑتال کے دوران مشتعل مظاہرین اور پولیس آمنے سامنے آگئے تھے جس کے دوران پتھراؤ کے جواب میں پولیس نے آنسوگیس کی شیلنگ کردی تھی۔
جمعرات کو چھاپوں کے دوران کم از کم 70 افراد کی گرفتاری کے بعد جموں کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔
ہڑتال اور احتجاج کے باعث آزاد کشمیر بھر میں تمام کاروباری مراکز، دفاتر اور تعلیمی ادارے بند تھے۔
جمعے اور ہفتے کے دوران پولیس اور مظاہرین کے دوران جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں کم از کم ایک پولیس اہلکار جاں بحق اور 90 دیگر افراد زخمی ہو گئے تھے۔