سوشل میڈیا کے خرافات اور نسل نو!

تحریر:راؤ غلام مصطفی

نوجوان نسل پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی قوم کا سہارا بنیں اور مشکلات و مصائب سے قوم کو نکال کر اس کو روشن مستقبل دیں نوجوان نسل پر یہ فرض ہے کہ وہ معاشرے میں پھیلی برائیوں اور سماجی ناسوروں کا قلع قمع کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں اس کے لئے نوجوان نسل کا سنجیدہ ہونا بہت ضروری ہے۔موجودہ وقت اور حالات ایسے ہیں کہ ہر شعبہ زندگی میں اخلاقی اقدار روبہ زوال ہیں اخلاقی اقدار کے زوال کا سب سے بڑا سبب نوجوان نسل میں سوشل میڈیا کا کا بڑھتا ہوا غلط استعمال ہے سوشل میڈیا پر آج کا نوجوان ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کرتا ہے جو کسی بھی مہذب معاشرے کے لئے ناقابل قبول ہے جب کہ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کر کے جواز پیش کیا جاتا ہے کہ ہم لوگوں کو ہنسنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں نوجوانوں کی سوشل میڈیا پر ایسی بے جا اور فضول ویڈیوز اپ لوڈ کرنے سے ہر شعبہ زندگی متاثر ہو کر اخلاقی اقدار کے زوال کا سبب بن رہا ہے قوم جو پہلے ہی معاشی ناہمواریوں کے باعث ذہنی انتشار اور کرب میں مبتلا ہے ایسے میں نوجوان نسل کی جانب سے سوشل میڈیا کے غلط استعمال نے مزید قوم کو اخلاق باختہ بنانے میں کردار ادا کیا ہے ملک کے معاشی حالات کب اور کیسے درست ہو نگے یہ سوال تاحال اقتدار کے ایوان میں بیٹھے حکمرانوں کے در پر دستک دے رہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ صورتحال بڑی تکلیف دہ ہے کہ ملک کی نوجوان نسل علم و ادب سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر مسخرے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں نوجوان نسل ملک و ملت کا ایسا سرمایہ ہے جو ملک کو ترقی سے ہمکنار بھی کر سکتا ہے اور ذہنی و معاشی پسماندگی سے دوچار بھی کر سکتا ہے۔حیرت و تعجب تو اس بات پر ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ مسخرہ پن بھی دوسروں کی عزت کو پامال کرنے کے لئے پیش کیا جاتا ہے کسی کی بھی ذرہ برابر زبان پھسلی اور کوئی غلط فقرہ منہ سے نکل گیا تو سوشل میڈیا پر بیٹھے نوجوان جب تک اس کی عزت کا کچرا کر کے لاکھوں لوگوں تک پہنچا نہ لیں سکون سے نہیں بیٹھتے حالانکہ مذہب اسلام تو پردہ پوشی کی تعلیم دیتا ہے ہماری اجتماعی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اب تو چھوٹے بچوں کو بھی ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان بچوں کا تعلیم تربیت سے اب دور دور کا بھی واسطہ نہیں رہا قوم کی بیٹیاں تک بھی اب سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کرنے سے نہیں کتراتی اور کے قوم کے بزرگوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے یہ کون سی آگاہی ہے جس کے باعث قوم اخلاقی اقدار کو اپنے ہاتھوں سے دفن کر رہی ہے۔یہ ملک کے حکمرانوں‘نوجوان نسل اور والدین کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ سوشل میڈیا کے حد سے زیادہ بے جا استعمال کی وجہ سے یہ قوم نہ صرف اقتصادی طور پر کمزور ہو رہی ہے بلکہ اخلاقی طور پر بھی پسماندگی کا شکار ہو رہی ہے اور ہماری صحت پر اس کے مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔سوشل میڈیا کا حد درجہ استعمال نوجوان نسل کے لئے ایک فیشن بن چکا ہے اور بحیثیت قوم ہم کو احساس تک نہیں رہا کہ ہمارے بچے اس ملک و ملت کا سرمایہ کس راہ پر گامزن ہو چکے ہیں قوم کی اجتماعی بے حسی کو دیکھ کر علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آرہا ہے کہ۔۔
وائے ناکامی!متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری نئی نسل ان خرافات کا شکار ہو کر علم و ادب سے دور ہو جائے اور ہمارے پاس کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے اور ہمارا مزاج ایسا نہ بن جائے کہ ہم سب اس مسخرے پن کا شکار ہو جائیں دیکھا جائے تو اجتماعی طور پر ہماری ساخت داؤ پر لگ چکی ہے جس قسم کی ویڈیوز پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہیں ایسانہ ہو کہ پوری دنیا کے سامنے یہ ہماری ساخت بن جائے سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے مضمرات سے کیسے بچا جائے ہمارے پاس کوئی ایسا بٹن نہیں کہ جسے دباتے ہی ہم سوشل میڈیا سے غائب ہو جائیں سوشل میڈیا کا اگر صیح استعمال کیا جائے تو ہم معاشرے میں نکھار لا سکتے ہیں اور نیگٹو باتوں اور چیزوں کو مثبت رنگ دے سکتے ہیں جس سے ہم سوشل میڈیا کے منفی اثرات کو زائل کر سکتے ہیں ہمیں چاہئیے کہ اپنے بچوں کو سمارٹ فون سے دور رکھیں بچوں کو سوشل میڈیا کے منفی اثرات کے بارے میں پیار سے سمجھائیں اور انہیں اس وبا سے دور رکھنے کی حتی المقدور کوشش کریں لیکن ایسا کرنے کے لئے کافی محنت اور توجہ درکار ہو گی ایسا ممکن نہیں کہ والدین تو بلا ضرورت سوشل میڈیا کا استعمال جاری رکھیں اور ہم توقع کریں کہ ہمارے بچے ہماری تقلید نہ کریں اگر نسل نوکو اس وبا سے بچانا ہے تو والدین اور گھر کے دیگر افراد کو سوشل میڈیا کا کم سے کم استعمال کرنا ہو گا اور جب بچے گھر میں موجود ہوں تو خود کو سوشل میڈیا سے الگ کرنا ہو گا بچوں کے سامنے موبائل فون کو استعمال کرنے سے گریز کرنا ہو گا کووڈ کے باعث تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے بچوں کو موبائل فون دئیے گئے ہیں اور تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے آن لائن تعلیم کے لئے بچوں کو موبائل فون کی ضرورت بھی ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ سمارٹ فون سے بچوں کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچ رہا ہے اگر کچھ فائدہ ہوا بھی ہے تو دوسری جانب ہمارے بچے موبائل کے غلط استعمال کے باعث اخلاقی گراوٹ کا بھی شکار ہو رہے ہیں جو کہ نسل نو کے مستقبل کے لئے ناقابل تلافی نقصان ثابت ہو سکتا ہے ایک بات تو طے ہے کہ موبائل فون کتاب کا نعم البدل نہیں ہو سکتا سمارٹ فون کے استعمال سے اگر بچے مروجہ تعلیم میں کمزور بھی رہیں لیکن کم از کم اخلاقیات کا دامن نہ چھوڑیں دوسری بات یہ ہے کہ علم و ادب کی باتیں سننے کے عادی بن جائیں تاکہ دنیا کو پیغام جائے کہ یہ قوم اپنے روشن مستقبل کے لئے سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور یہ سوشل میڈیا کے خرافات سے کوسوں دور ہے اس کے لئے ہمیں مل کر اپنی نسل نو کے لئے سوچ کو عمل کی سیڑھی دینا ہو گی تاکہ جس نسل کی ہم آبیاری علم و ادب کی بنیاد پر کریں گے تو یقیننا ہم اپنی نسل نو کو ایک تابناک مستقبل سے مزین ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل کر سکتے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment