کُتا بریک

تحریر: عاصم نواز طاہرخیلی (تربیلہ غازی)

کل شام تحریر کے لیے کچھ موضوع سوچ رہا تھا کہ باہر گلی میں روزانہ کی طرح کتوں کے بھونکاٹ نے ساری توجہ کا ستیا ناس کر دیا۔ حجرے، چوک اور کسی مین گلی کے پاس گھر ہونا بھی اک عجیب سی ازیت کا نام ہے۔ اگر انسان بیماری یا کسی گہری سوچ میں مبتلا ہو تو پاس کی مسجد میں لاؤڈ سپیکر پر اعلان اور آزان بھی طبیعت پر گراں گزرتے ہیں تو یہ ہر وقت کا موٹر سائیکلوں کا شور اور کتوں کی آوازیں کیا سماں باندھتی ہونگی۔اس سلسلے میں پطرس بخاری کے مضمون ” کتے” میں کتوں کا مشاعرہ یاد آجاتا ہے۔
بحرحال کتوں کے بھونکاٹ نے ساری توجہ کا ستیا ناس تو کر دیا مگر ساتھ ہی اک موضوع بھی مل گیا۔ کتا اک جانور ہی نہیں بلکہ اک ٹرم اور نفسیات کا نام بھی ہے اس لیے میرے کالم میں یہ لفظ اک ٹرم اور نفسیات کے طور پر ہی لیا جائے گا نا کہ کسی کی دل آزاری کے لیے۔ کتوں کے آوازوں نے سب سے پہلے اک لفظ “کتا بریک” یاد کرا دیا اور پھر ساتھ ساتھ کتوں سے تعلق رکھنے والی اور بھی کئی باتیں یاد آنے لگیں جنہیں احاطہءِ تحریر میں لاتا ہوں۔
اک وقت تھا کہ جب صحت اور فراغت تھی۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں اکثر جب ہم کزنز اکٹھے ہوتے تو تاش کی گیم بلیک کوئین لگتی۔ ہم سب اس گیم کے بہت شوقین تھے۔ اس لیے پشاور، اسلام آباد، سلم کھنڈ اور خالو میں جہاں بھی موقع ملتا اکٹھے ہو جاتے اور بلیک کوئین شروع کر دی جاتی۔ پھر وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا۔ اس گیم میں سینچری ہونے کا مطلب ہارنا ہے۔ خوش قسمتی یا ساتھی کی مدد سے اچھے پتے آجانے پر سینچری یعنی شکست رک جانے کیلیے “کتا بریک” کی ٹرم استعمال ہوتی تھی۔ اللہ کرے ہمارے تنزل میں جانے والے ملکی حالات کو بھی کوئی ایسی ہی بریک لگے اور ہم مہنگائی کی سینچریوں سے بچ جائیں۔
ابھی یہی سوچ رہا تھا دہم کی اردو میں پطرس بخاری کا مضمون ” کتے” یاد آگیا۔ اس مزاحیہ مضمون میں پطرس بخاری صاحب نے کیا خوب انداز میں ہمارے ارد گرد پھیلے بدتمیز کتوں، شائستہ کتوں، خدا ترس کتوں، بے ڈھنگے کتوں سمیت پتہ نہیں کیسے کیسے کتوں کا نقشہ کھینچا۔ اس مضمون کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ کتے ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ انسانوں میں بھی ان کی علامتیں اتنی موجود ہیں کہ یہ لفظ اک قسم کی نفسیات اور اصطلاح کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ہماری میٹرک تک کے اردو اور انگلش امتحانات کے لیے “لالچی کتا” کی کہانی ہمیشہ یاد کرائی جاتی ہے۔ یعنی ہڈی کا لالچ “کتا نفسیات” کا اہم جزو ہے۔ ہمارے معاشرے اور پوری دنیا میں کہیں بھی لالچ کا فیکٹر اس حد تک بڑھ جائے کہ انسان فساد پھیلانے سے بھی گریز نہ کرے تو اسے علامتی طور پر “کتا نفسیات” ہی گردانا جاتا ہے۔ اگر یہ فیکٹر مزہبی لوگوں میں آجائے تو انتہائی نقصان پہنچاتا ہے۔مثلاََ مولانا ابولکلام آزاد نے اپنی کتاب تذکرہ میں جہاں علماء حق کی تعریف کی ہے وہیں علماء سُو کے لیے کتوں کی لڑائی بطور نقشہ بھی کھینچی ہے۔ ان کے مطابق سانپ اور بچھو تو اک سوراخ میں جمع ہوسکتے ہیں لیکن علماء سُو کے لیے انہوں نے لکھا ہے کہ یہ دنیا کی ہڈی سامنے آتے ہی اپنے پنجوں اور دانتوں پر قابو نہیں رکھ پاتے۔بحرحال مولانا ابوالکلام آزاد کی تو وہ جانیں، ہم تو یہی کہیں گے کہ علماء جو بھی ہوں ہم سے بدرجہا بہتر ہیں۔ آج قادیانی فتنے سے نجات اور ملک میں مزہبی شدت پسندی کی کمی انہی کی بدولت ہے۔ چھوٹے موٹے اختلافات تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔

اچھا تو بات ہو رہی تھی کتا بریک، کتا نفسیات یا لفظ کتا بطور اصطلاح کی تو یہ سب دراصل کتوں کی عادات سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔ کتا چاہے جتنا وفادار ہو لیکن اپنی لالچی طبیعت کی بنا پر وہ باوقار جانور نہیں بن پاتا۔ گلی کا کتا ہو یا بنگلے کا، بھوکا کتا ہو یا بھرے پیٹ والا، آپس میں لاکھ دشمنی ہو لیکن جونہی کسی سمت سے ان کو ہڈی پھینکی جاتی ہے وہ سب امتیاز اور دشمنی بھول کر ہڈی کے معاملے میں ایک ہو جاتے ہیں۔ کوئی چور جب چوری والے گھر کے رکھوالے کتے کو بھی گوشت یا ہڈی ڈال دے تو رکھوالی بھاڑ میں چلی جاتی ہے۔ اسی طرح انتہائی تیزی سے دوڑتا کتا جب ہڈی یا بڑا کتا دیکھ کر بریک لگاتا ہے تو وہ منظر بھی ذرا اپنے زہن اور آنکھوں میں دوڑائیے۔ یقین کیجیے کتا بریک کے سامنے آپ گاڑی کی بریک کو بھول جائیں گے۔
بات کو اس دعا کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ اللہ کرے کتوں کو ہدایت ملے اور معاشرے میں پھیلی کتا نفسیات یعنی ہڈی کی خاطر غداری کرنے، ہارس ٹریڈنگ اور اپنے ہی محسن پر غرانا وغیرہ ختم ہو۔ ہمارے ملک کی گرتی معیشت کو کتا بریک لگے اوردعا یہی ہے کہ اس کا باعث بننے والی کتا نفسیات کو ہدایت ملے۔

Comments (0)
Add Comment