اسلام آباد میں وزیر اطلاعات اور وزیر قانون کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سعودی وفد پاکستان آیا ہوا تھا، انہوں نے بڑے اعتماد کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ بزنس ٹو بزنس ان کے ساتھ بڑے اچھے مذاکرات ہوئے، اس کا پس منظر ہے کہ گزشتہ 10 مہینے سے ہمارے معاشی اہداف سب صحیح سمت میں جا رہے ہیں، تجارتی خسارہ بالکل قابو میں ہے، اسی طرح زرعی جی ڈی پی میں 5 فیصد مثبت نمو ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں، اور یہ 2 مہینے کی درآمدات کے لیے کافی ہے، اسی طرح کرنسی کی قدر مستحکم ہے، افراط زر بھی 38 فیصد سے کم ہو کر 17 فیصد پر آچکی ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ کچھ سرمایہ کار امریکا اور یورپ سے بھی آئے ہوئے ہیں، پچھلے 2 دونوں سے ملاقات کر رہا ہوں، ملک صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، آئی ایم ایف کی ٹیم بھی اس مہینے آئے گی، جس میں اسٹرکچرل اصلاحات بہت اہم ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ٹیکس کو بڑھانا ہے، انرجی کے شعبے میں اصلاحات کرنا ہے، اسی طرح سرکاری ملکیتی اداروں کے خسارے کم اور ان کی نجکاری کرنا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے اپنے اخراجات کو بھی کم کرنا ہے، اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی طرف جائیں، میں ہمیشہ حکومت سندھ کی تعریف کرتا ہوں کہ انہوں نے بڑا اچھا ماڈل استعمال کیا ہے، اسے وفاق و دیگر صوبوں میں بھی استعمال ہونا چاہیے۔
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پنشن کا جو معاملہ ہے، یہ بہت بڑا بوجھ ہے، میں اسے دو نظریے سے دیکھتا ہوں، میں جس ادارے کو چھوڑ کر آیا ہوں، اس میں بھی ہم نے نجی شعبے میں پہلا قدم اٹھایا تھا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سے 65 سال کردی تھی، دوسرا یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں سروس اسٹرکچر میں تبدیلی کرنا ہوگی، ہمیں اس طرف لے جانا پڑے گا تاکہ پنشن کا خرچہ آہستہ آہستہ ہمارے قابو میں آئے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے وژن کے مطابق اس دفعہ یہ بھی ہدایت ہے کہ حکومتی سطح پر جو جو کام ہو رہے ہوں، وہ عوام سے شیئر کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ آج کے ماڈرن زمانے میں جو ملک سروائیو کرتا ہے، وہی آگے بڑھے گا، اگر ہماری معیشت ٹھیک ہے، تو انشا اللہ ہر چیز ٹھیک ہوگی، اب ہم اس نہج پر آ چکے ہیں کہ ہمیں صرف باتوں سے گزارا نہیں ہوگا، اب ہمیں عملی اقدامات کرنے ہیں۔
وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ پنشن ریفارمز پر بھی اسی حوالے سے بات ہو رہی ہے کہ اس میں ابھی عمر کے حوالے سے واضح چیز سامنے نہیں آئی، لیکن ایک اصولی فیصلہ ہے کہ جو بہت بڑا پبلک سیکٹر ہے، اس کے ساتھ ریٹائرمنٹ بینفٹ اور پنشن جڑی ہوتی ہے تو اس کے سالانہ اخراجات کا بہت سارا حصہ اس پر نکل جاتا ہے، اس کی منیجمنٹ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جو تجربہ کار لوگ ہیں، ان سے استفادہ رکھیں، اس کا فوری طور پر معاشی طور پر گھٹے ہوئے ماحول میں بریدنگ اسپیس دے گا، اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس حوالے سے وزیراعظم نے وزیرخزانہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے، ہم بھی اس کے اراکین ہیں۔
اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ ہم تاریخ کے جس موڑ پر کھڑے ہیں، ہم ایک ٹرانسفورمیشن کی طرف جا رہے ہیں، ہم اصلاحات کرنے جا رہے ہیں، معیشت کے حوالے سے تمام اشاریے مثبت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنشن کا جو ایک بوجھ ہے، جب وزیراعظم نے چارج سنبھالا تو ایک بات کی تھی کہ ہم حکومتی اخراجات کم کرنے جا رہے ہیں، اخراجات میں کمی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ پنشن کی ہے، یہ بہت بڑا بوجھ ہے جو حکومت پاکستان کو اٹھانا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وضاحت کردوں کہ تمام اداروں پر لاگو کرنے کی تجویز ہے، میڈیا میں پچھلے کچھ ہفتوں سے قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں اور کسی ایک ادارے کے ساتھ اس کو منسوب کیا جا رہا ہے، تمام سرکاری محکموں اور اداروں میں لاگو ہوگا، ابھی اس پر تجاویز طلب کی گئی ہیں، غور و فکر بھی کیا جارہا ہے۔
عطا تارڑ نے کہا کہ پنشن کا بوجھ کم کرنا اور پاکستان میں سروس کا دورانیہ بڑھانے کے حوالے سے جو معاملات زیر غور ہیں، ان پر سیر حاصل گفتگو ہو رہی ہے۔
شرح سود میں کمی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس کا اختیار اسٹیٹ بینک کے پاس ہے، لیکن میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جس طرح مہنگائی نیچے آ رہی ہے، میں پُرامید ہوں کہ پالیسی ریٹ نیچے آنا شروع ہوگا، اس میں حکومت کا بھی فائدہ ہے اور یہ بات واضح ہے کہ 25، 26 فیصد شرح سود پر نئی سرمایہ کاری نہیں آسکتی۔
انہوں نے کہا کہ زری پالیسی کمیٹی کا بیان ہے کہ ستمبر 2025 تک شرح سود 5 سے 7 فیصد تک آ جائے گی، مجھے یقین ہے کہ جون، جولائی، اگست میں ریٹ نیچے آتا دکھائی دے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب میری ملاقات اجے بنگا سے ہوئی تو میں نے کہا کہ ہمیں ورلڈ بینک گروپ کی سپورٹ ملنی چاہیے، ہم صرف آئی ایم ایف کی بات کرکے رک جاتے ہیں، اور بھی مالیاتی ادارے ہیں جو ہماری مدد کرسکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اگر پنشن اصلاحات کے ساتھ یہ طے ہوتا ہے کہ آپ کے پاس نوجوانوں کی تعداد بھی زیادہ ہے، جب اس پر عملدرآمد ہونے کی بات آئے گی تو اس میں یہ تو نہیں کیا جاسکتا کہ نائب قاصد کو دے دیں اور ادارے کے سربراہ کو نہ دیں، درمیانے والے افسران کو دے دیں اور نیچے والے افسران کو نہ دیں۔