راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ افغان سرزمین استعمال کرکے ٹی ٹی پی کارروائی کررہی ہے، حالیہ دہشتگردی کے تانے بانے افغانستان میں ملتے ہیں، پاکستان نے افغانستان کی عبوری حکومت کی ہر سطح پر مدد کی لیکن افغانستان کی عبوری حکومت نے وعدوں پر عملدرآمد تاحال نہیں کیا، ٹھوس شواہد موجود ہیں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغان سرزمین استعمال کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور اپنے شہریوں کو ہر قیمت پر تحفظ فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افواج پاکستان کی اولین ترجیح ملک میں امن و امان قائم کرنا ہے، اور اس کے لیے ہم دہشت گردوں، ان کے سر پرستوں اور سہولت کاروں کی سرکوبی کے لیے ہر ممکن حد تک جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عوام دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی افراد کو واپس بھیجنے کا فیصلہ وسیع تر ملکی مفاد میں کیا گیا، اب تک 5 لاکھ 63 ہزار 639 غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندیں اپنے ملک واپس جا چکے ہیں تاہم لاکھوں افغان شہری اب بھی پاکستان میں رہ رہے ہیں۔
میجرجنرل احمد شریف نے کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنےکافیصلہ ملکی مفاد میں کیا گیا تھا، 5 لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجا گیا۔
انہوں نے کہا کہ خطےمیں قیام امن کے لیے پاکستان کا کردار کسی سےڈھکا چھپا نہیں، خطے میں قیام امن کے لیے پاکستان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے جواب میں افغانستان کے اندر سرحدی علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کی محفوظ پنا گاہوں کو نشانہ بنایا جس میں 8دہشتگردوں کو ٹھکانے لگاایا گیا جو پاکستان میں دہشتگردی کی متعدد وارداتوں میں ملوچ تھے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ دہشت گردی کی ناکام کارروائیاں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ سیکیورٹی فورسز دشمن کے عزائم کو ناکام بنا رہی ہیں، اس کی ایک اور مثال 20 مارچ 2024 کو گوادر پورٹ اتھارٹی کالونی پر 8 دہشت گردوں کا حملہ ہے جسے پاک فوج کے جوانوں نے جواں مردی سے ناکام بنایا اور آٹھوں دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک اندوہناک واقعہ 26 مارچ 2024 کوخیبرپختونخوا کے علاقے بشام میں پیش آیا جہاں داسو ڈیم پر کام کرنے والی چینی انجینئرز کی گاڑی کو خود کش بم حملہ آور نے نشانہ بنایا، اس کے نتیجے میں 5 چینی باشندے اور ایک پاکستانی لقمہ اجل بن گئے، اس خود کش حملے کی کڑیاں بھی سرحد پار سے جا ملتی ہیں ، اس حملے کی منسوبہ بندی افغانستان میں کی گئی، دہشتگرد، سہولت کاروں کا کنٹرول بھی افغانستان سے کیا جارہا تھا۔
ترجمان نے کہا کہ خود کش بمبار بھی افغان شہری تھا، افواج پاکستان دہشتگردی کے اس گھناؤنے فعل کی شدید مذمت کرتی ہے، اور ان کے ذمہ داروں کے انصاف کے کٹھرے میں لانے کے لیے ہر ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں، اسی طرح 25 مارچ 2024 کو تربت میں ہونے والے دہشتگردانہ حملے کے دوران بھی پاک فوج کے جوان نے جام شہادت نوش کیا، جبکہ 4 دہشتگرد جہم واصل کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ 16 اور 17 اپریل 2024 کو افغانستان سے متصل شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقے غلام خان میں دہشتگردی کے غرض سے دراندازی کرنے پر 7 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا جن میں سے ایک کی شناخت ملک الدین مصباح کے نام سے ہوئی جو افغانستان کے سوبے پتیکا کا رہائشی تھا اسی طرح 23 اپریل کو بلوچستان کے علاقے ضلع پشین میں بھی سیکیورٹی فورسز کے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کے دوران 3 دہشتگردوں کو جہم واصل جبکہ ایک کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ اس گرفتار دہشتگرد کا نام حبیب اللہ ولد خان محمد تھا جو کہ افغانستان کے عالاقے اسپن بلدک کا رہائشی تھا، افغان دہشتگرد نے اپنے بیان میں پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں کا اعتراف بھی کیا جیسا کہ آپ ویدیو میں دیکھ بھی سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشتگردی کی اس تازہ لہر کی بڑی وجہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو پڑوسی ملک افغانستان سے ملنے والی اس طرح کی سہولیات اور اس کے علاوہ جدید اسلحہ کی فراہمی بھی ہے، آرمی چیف کئی بار واضح طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا علاقائی امن و استحکام کو متاثر کرنا اور عبوری افغان حکومت کی دوحہ امن معاہدے سے انحراف ہے۔