چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ ابھی نہیں ملا، حکومت کا جواب داخل کرنے کے لیے حکم نامہ وزیرِ اعظم کو دکھانا ضروری ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے عملے سے سوال کیا کہ کیا حکم نامے پر دستخط ہو گئے، اگر نہیں تو کیوں نہیں ہوئے؟ کھلی عدالت میں حکم نامہ لکھوایا تھا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آج حکم نامہ مل جائے تو حکومت کل تک اپنا جواب داخل کر دے گی۔
دورانِ سماعت سپریم کورٹ میں مختلف بارز کے وکلاء بھی پیش ہوئے۔
سپریم کورٹ بار کی تجاویز
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی سپریم کورٹ میں تجاویز جمع کرا دیں۔ سپریم کورٹ بار نے اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار عدلیہ کی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی، عدلیہ میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں، ججز کی ذمے داریوں اور تحفظ سے متعلق مکمل کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس توہینِ عدالت کا اختیار موجود ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کو کسی قسم کی مداخلت پر توہینِ عدالت کی کارروائی کرنی چاہیے تھی، ہائی کورٹ کی جانب سے توہینِ عدالت کی کارروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے خط میں گزشتہ سال کے واقعات کا ذکر کیا، ججز کا خط میڈیا کو لیک کرنا بھی سوالات کو جنم دیتا ہے، کسی بھی جج کو کوئی شکایت ہو تو اپنے چیف جسٹس کو آگاہ کرے، اگر متعلقہ چیف جسٹس کارروائی نہ کرے تو سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کیا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اسلام آباد بار اور کراچی بار ایسوسی ایشن کتنا وقت لیں گی، کوئی اور تنظیم ہے جو یہاں موجود ہے، جو انفرادی طور پر آئے ہیں وہ بھی اپنا بتا دیں، اٹارنی جنرل! آپ یہ آرڈر پڑھ لیں، ان کو اصل آرڈر دے دیں۔
تعجب ہے اتنے وکیل ہیں لیکن ایک پیج پر نہیں آسکتے: چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تعجب ہو رہا ہے کہ اتنے وکیل ہیں لیکن ایک پیج پر نہیں آسکتے، تعجب ہے کہ وکیل عدلیہ کی آزادی کے لیے بھی ایک پیج پر نہیں آ سکتے، پاکستان بار کونسل سے شروع کرتے ہیں، ہر شخص کہہ رہاہے کہ اپنی بات کرنی ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ میں نے یہ تجویز نہیں کیا کہ انفرادی طور پر یہ کریں، میں یہ تجویز کر رہا تھا کہ ایک باڈی کی میٹنگ کر لیتے، جمہوری ادارے پارلیمنٹ میں اپوزیشن اہم حصہ ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک معزز جج نے اضافی نوٹ لکھا وہ بھی پڑھ لیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اضافی نوٹ لکھا تھا، انہوں نے کہا کہ میں معذرت چاہتا ہوں، میری لکھائی اچھی نہیں ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جی واقعی لکھائی اچھی نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سابق صدر عابد زبیری سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم کسی پرائیوٹ شخص کو فریق نہیں بنائیں گے، وکلاء بتائیں دلائل کے لیے کتنا وقت درکار ہو گا، میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار بڑی تنظیمیں ہیں، جب ہدف ایک ہے تو کہیں ایک ہیں، بسم اللّٰہ کریں ہم سنتے ہیں۔
پاکستان بار کونسل کے نمائندے کے دلائل
پاکستان بار کونسل کے نمائندے نے دلائل شروع کرتے ہوئے ججز کے خط کو پڑھا اور کہا کہ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی مانگی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر کسی کو سنا جائے، میں نے ترجیح آرگنائزیشنز کو دی ہے، پاکستان بار کونسل کو پہلے موقع دیا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو پھر سنیں گے، ہدف ایک ہے، کوئی تنازع نہیں، آزاد عدلیہ سب کا مقصد ہے۔
پاکستان بار کونسل کے نمائندے نے کہا کہ ججز نے بہت سنگین الزامات لگائے ہیں۔
نوٹ میں لکھا وفاقی حکومت مطمئن کرے، مداخلت نہیں: جسٹس اطہر
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ نوٹ میں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ مطمئن کرے، مداخلت نہیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ یہ بات اصل آرڈر کے پیراگراف 5 میں بھی ہے۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اس پیراگراف میں صرف تجاویز مانگنے کی بات تھی۔
پاکستان بار کونسل کے نمائندے نے کہا کہ پاکستان بار کونسل سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنائے، ججز کے خط میں سنگیں الزمات عائد کیے گئے ہیں، تمام سنگیں الزامات کی تحقیقات ہونا چاہئیے، الزامات کی تحقیقات کے لیے حاضر سروس جج یا ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت سپریم کورٹ تحقیقات خود نہیں کر سکتی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ 6 ججز نے خط میں لکھا ہے کہ مداخلت کا عمل جاری ہے، سب مان رہے ہیں کہ مداخلت ہو رہی ہے۔
مداخلت تو ہو رہی ہے، حکومت کچھ نہیں کر رہی: جسٹس جمال
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مداخلت تو ہو رہی ہے لیکن حکومت کچھ نہیں کر رہی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ساری ہائی کورٹس نے اپنی رپورٹس میں سیاسی مقدمات پر سنگین باتوں کو اجاگر کیا ہے، اس وقت پاکستان بار کونسل کی رپورٹ آ چکی تھی، ایک ہائی کورٹ نے تو یہ کہا کہ یہ آئین کو سبوتاژ کیا گیا ہے۔
پاکستان بار کونسل کے نمائندے نے کہا کہ توہینِ عدالت کے تحت توہین، مداخلت اور جج کواسکینڈلائز کرنے پر کارروائی ہو سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایک الگ ادارہ ہے، میں سپریم جوڈیشل کونسل کا چیئرمین ہوں لیکن میں بطور خود سپریم جوڈیشل کونسل نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل میں دیگر ممبران بھی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ایک ہائی کورٹ نے تو یہ کہا کہ یہ آئین کو سبوتاژ کرنے جیسا ہے، یہ 6 ججوں کا خط نہیں، یہ ایک عمل ہے جو نہ دھرنا فیصلے سے ختم ہوا، نہ کسی اور اقدام سے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2018ء میں بھی ایسا ہوا، یہ محض 6 ججوں کا خط نہیں انہوں نے نشاندہی کی ہے، یہ ایک رجحان کی عکاسی کرتا ہے، ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ چیزیں ہوتی ہیں، یہ رجحان دھرنا فیصلے اور دیگر فیصلے سے ختم نہیں ہوا، ہم نے 76 سال جھوٹ بولا ہے، سچ چھپایا ہے، کیا ڈیٹرنس بنایا جائے کہ یہ رکے؟ آپ ہائی کورٹ کے ججوں سے یہ توقع کر رہے ہیں ہم سب ہائی کورٹ کے جج رہے ہیں۔