وزارت قانون نے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا 11 اکتوبر 2018 کی برطرفی کا نوٹیفکیشن بھی واپس لے لیا۔
یاد رہے کہ 3 مئی کو صدر مملکت آصف علی زرداری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی منظوری دے دی تھی۔
صدر مملکت نے نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی منظوری آئین کے آرٹیکل 195 کے تحت دی جس کے تحت ریٹائرمنٹ کے نوٹیفکیشن کا اطلاق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی ریٹائرمنٹ کی عمر پوری ہونے کی تاریخ 30 جون 2021 سے ہو گا۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر آئین کے آرٹیکل 209(6) کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔
صدر ِپاکستان نے وزارت قانون و انصاف کی تجاویز کی منظوری وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر دی۔
خیال رہے کہ شوکت عزیز صدیق کو 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر کے لیے بطور جج نامناسب رویہ اختیار کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر جوڈیشل آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔
21 جولائی 2018 کو کی گئی اپنی تقریر میں آئی ایس آئی اور مسلح افواج کے سربراہان پر عدالتے کی سماعتوں پر اثر انداز ہونے اور اپنی پسند کے بینچ بنوانے کا الزام عائد کیا تھا۔
بعد ازاں شوکت عزیز صدیقی نے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور اپنی ترمیم شدہ درخواست میں 7 افراد کو نامزد کیا تھا لیکن عدالت نے کہا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق بریگیڈیئرز فیصل مروت اور طاہر وفائی کا معاملے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔
22 جنوری کو عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے کہا تھا کہ جسٹس شوکت صدیق بلاوجہ انہیں؟ اس مقدمے میں گھسیٹا حالانکہ ان کا اس سب سے کوئی لینا دینا نہیں جبکہ انہوں نے بینچوں کے قیام میں اثر و رسوخ کے استعمال کے الزامات کو بھی مسترد کردیا تھا۔
مقدمے کی آخری سماعت کے موقع پر عدالت نے سوال کیا تھا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیق کی برطرفی سے قبل باضابطہ طریقہ کار پر عمل کیا تھا اور اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 22 مارچ کو سنائے گئے فیصلے میں سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دے دیا تھا۔